سری نگر: دارالحکومت سری نگر میں پیر کو مسلسل دسویں روز بھی سخت ترین کرفیو کا نفاذ جاری رہا جہاں اتوار کی شام کو احتجاجی مظاہرے کے دوران آنسو گیس کا شیل لگنے سے ایک جواں سال نوجوان ہلاک ہوگیا۔
سری نگر کے علاوہ جنوبی کشمیر کے قصبہ اننت ناگ میں بھی کرفیو کا نفاذ جاری رکھا گیا ہے ۔ تاہم وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام کے خانصاحب میں دوبارہ کرفیو نافذ کردیا گیا ہے ۔
سرکاری ذرائع نے یو این آئی کو بتایا کہ پورے ضلع سری نگر اور اننت ناگ و خانصاحب قصبہ جات میں آج کرفیو نافذ رہے گا۔ انہوں نے بتایا کہ جن علاقوں کو کرفیو سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے ، میں دفعہ 144 سی آر پی سی کے تحت چار یا اس سے زیادہ افراد کے ایک جگہ جمع ہونے پر پابندی عائد کر رکھی گئی ہے ۔
کرفیو اور پابندیوں کے باوجود وادی کے بیشتر علاقوں میں احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ اس کے علاوہ احتجاجی مظاہرین اور سیکورٹی فورسز کے مابین جھڑپوں کی اطلاعات مسلسل موصول ہورہی ہیں۔
دریں اثنا کشمیر کی سڑکوں پر بارڈر سیکورٹی فورس (بی ایس ایف) فوجیوں کی تعیناتی کا عمل شروع ہوگیا ہے ۔ سری نگر کے سیول لائنز میں تعینات بی ایس ایف فوجیوں کے ایک گروپ نے بتایا ‘ہمیں امرناتھ یاترا ڈیوٹی انجام دینے کے بعد یہاں تعینات کیا گیا’۔
یو این آئی کے ایک نامہ نگار جس نے کرفیو زدہ سیول لائنز کے مختلف علاقوں بشمول ریگل چوک، ریذیڈنسی روڑ، مولانا آزاد روڑ اور پولو ویو کا دورہ کیا، نے اِن علاقوں کی سنسان پڑی سڑکوں پر بی ایس ایف فوجیوں کو تعینات دیکھا۔ وادی کے دوسرے کچھ علاقوں سے بھی بی ایس ایف کی تعیناتی کی اطلاعات موصول ہوئیں۔
بی ایس ایف کے ایک ترجمان نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ فورس کے اہلکاروں کو امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لئے تعینات کردیا گیا ہے ۔
تاہم انہوں نے بتایا کہ ‘کتنی کمپنیاں تعینات کی جائیں گی ‘ کی تفصیلات اکٹھا کی جارہی ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ وادی میں فوج کو کئی ایک مقامات بالخصوص شمالی اور جنوبی کشمیر میں قومی شاہراہوں پر تعینات کردیا گیا ہے ۔ وادی میں کرفیو اور ہڑتال کے باعث پیر کو مسلسل 45 ویں روز بھی معمولات زندگی مفلوج رہے ۔ وادی کے اطراف واکناف میں دکانیں اور تجارتی مراکز گذشتہ44دنوں سے مسلسل بند ہیں جبکہ سڑکوں پر گاڑیوں کی آواجاہی بھی معطل ہے ۔ وادی کے تمام سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے جہاں گذشتہ ماہ کی یکم تاریخ سے بدستور بند پڑے ہیں، وہیں سرکاری دفاتر میں معمول کا کام کاج 9 جولائی سے بدستور ٹھپ پڑا ہے ۔
اگرچہ ریاستی حکومت نے اپنے ملازمین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنی ڈیوٹیوں پر حاضر ہوجائیں بصورت دیگر انہیں اگست کی تنخواہ نہیں دی جائے گی۔ تاہم ملازمین نے اس سرکاری ہدایت پر ناراضگی اور افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ کرفیو، ہڑتال اور پابندیوں کے چلتے اُن کے لئے اپنے دفاتر میں حاضر ہونا ممکن نہیں ہوپا رہا ہے ۔
علیحدگی پسند قیادت سید علی گیلانی، میرواعظ مولوی عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے وادی میں جاری ہڑتال میں 25 جولائی تک توسیع کا اعلان کر رکھا ہے ۔ کسی بھی احتجاجی مظاہرے یا احتجاجی مارچ کی قیادت کرنے سے روکنے کے لئے بیشتر علیحدگی پسند لیڈران کو یا تو اپنے گھروں میں نظر بند رکھا گیا ہے ، یا پولیس تھانوں میں مقید رکھا گیا ہے ۔ ڈاون ٹاون کے ملارٹہ میں اتوار کی شام سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں ایک جواں سال نوجوان عرفان احمد کی ہلاکت کے بعد سری نگر کے ڈاون ٹاون اور شہرخاص میں گذشتہ 44 دنوں سے نافذ کرفیو میں مزید سختی لائی گئی ہے ۔
فتح کدل کا رہنے والا عرفان گذشتہ شام اُس وقت موقع پر ہی ہلاک ہوگیاجب سیکورٹی فورسز نے احتجاجی مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس کے گولے پھینکے ۔ ڈاکٹروں کے مطابق آنسو گیس کا شیل عرفان کے سینے پر جالگا تھا اور اسے مردہ حالت میں اسپتال لایا گیا تھا۔
تازہ ہلاکت کے ساتھ وادی میں 8 جولائی کو حزب المجاہدین کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد بھڑک اٹھنے والی ‘آزادی حامی’ احتجاجی لہر کے دوران مرنے والے شہریوں کی تعداد بڑھ کر 67 ہوگئی ہے ۔
زخمی شہریوں کی تعداد 5 ہزار ہے جن میں کم از کم دو سو افراد آنکھوں میں پیلٹ لگنے سے زخمی ہوگئے ہیں۔ احتجاجی لہر کے دوران دو پولیس اہلکار ہلاک جبکہ قریب 3 ہزار سی آر پی ایف و پولیس اہلکار زخمی ہوگئے ہیں۔
ڈاون ٹاون کے شہریوں نے بتایا کہ عرفان کی ہلاکت کے فوراً بعد ڈاون ٹاون اور شہرخاص کے بیشتر علاقوں سے سیکورٹی فورسز اور ریاستی پولیس کی تعیناتی ہٹالی گئی اور جلوس جنازہ میں شرکت کی غرض سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ نوہٹہ میں واقع تاریخی جامع مسجد پہنچے ۔ انہوں نے بتایا کہ عرفان کا پہلے جامع مسجد اور بعدازاں تاریخی عیدگاہ میں نماز جنازہ پڑھایا گیا جہاں اسے مزار شہداء میں ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں سپرد خاک کیا گیا۔ شہریوں نے بتایا کہ عرفان کو سپرد خاک کئے جانے کے بعد ڈاون ٹاون اور شہرخاص میں شبانہ احتجاج کا سلسلہ رات بھر جاری رہا، تاہم یہ احتجاج پرامن رہا۔
سری نگر انتظامیہ نے عرفان کی ہلاکت کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے خدشے کے پیش نظر ڈاون ٹاون اور شہرخاص میں گذشتہ 44 دنوں سے نافذ کرفیو میں آج مزید سختی لائی ہے ۔
تاہم سری نگر کے سیول لائنز بالخصوص تاریخی لال چوک میں گذشتہ 9 روز سے عائد کرفیو میں آج قدرے نرمی دیکھی گئی۔ تاریخی لال چوک کی طرف جانے والی بیشتر سڑکوں پر سے پیر کی علی الصبح خاردار تاریں ہٹالی گئیں، تاہم سیکورٹی فورسز اور ریاستی پولیس کے اہلکاروں کی بھاری تعداد میں تعیناتی برقرار رکھی گئی ہے ۔
اس کے علاوہ مضافاتی علاقوں سے سیول لائنز میں داخل ہونے والے شہریوں کو بھی سڑکوں پر چلنے کی اجازت دی جارہی تھی۔ ڈاون ٹاون اور شہر خاص کے رہائشیوں نے بتایا کہ وہ گذشتہ چار دنوں سے سخت ترین کرفیو کے نرغے میں ہیں جس کے باعث انہیں اشیائے ضروریہ بالخصوص دودھ، سبزیوں، روٹی، بچوں کے دودھ اور ادویات کی شدید قلت کا سامنا ہے ۔
سری نگر کے شہرخاص اور ڈاون ٹاون میں جہاں کرفیو کا نفاذ 9 جولائی سے بدستور جاری ہے ، میں 17 اور 18 جولائی کی درمیانی رات کو دن کے ساتھ ساتھ شبانہ کرفیو نافذ کئے جانے کی وجہ سے شہریوں کو اشیائے ضروریہ کی شدید قلت کا سامنا ہے ۔ صفا کدل اور نواح کدل کے رہائشیوں نے بتایا ‘اگرچہ ہم مضافاتی علاقوں سے آنے والے دودھ اور سبزی فروشوں سے دودھ اور سبزیاں حاصل کرتے تھے ، لیکن شبانہ کرفیو نافذ کئے جانے کی وجہ سے کسی کو بھی ہمارے علاقے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے ۔
ہمیں اشیائے ضروریہ کی شدید قلت کا سامنا ہے ‘۔ انہوں نے بتایا کہ سیکورٹی فورسز دودھ فروشوں کو علاقہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں جس کے باعث گذشتہ پانچ روز سے وہ بغیر دودھ کے چائے بنا رہے ہیں۔
ڈاون ٹاون کے رہائشیوں نے بتایا کہ علاقہ میں 15 اگست کو ہونے والی ایک جھڑپ کے بعد سے سخت ترین کرفیو نافذ ہے ۔
انہوں نے بتایا کہ یہاں تک کہ خواتین اور بچوں کو بھی اپنے گھروں سے باہر آنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے ۔ نوہٹہ میں واقع تاریخی جامع مسجد جہاں 9 جولائی سے نماز جمعہ کی ادائیگی کی اجازت نہیں دی گئی، کی طرف جانے والے تمام راستوں کو خاردار تار سے سیل رکھا گیا ہے جبکہ علاقہ میں پابندیوں کو سختی کے ساتھ نافذ کرنے کے لئے سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری بدستور تعینات رکھی گئی ہے ۔
نالہ مار روڑ کو قمر واری سے خانیار نوپورہ اور ٹرانسپورٹ برج تک بدستور بند رکھا گیا ہے اور اس کے دونوں اطراف سیکورٹی فورسز اور ریاستی پولیس کے اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد تعینات رکھی گئی ہے ۔
شہرخاص اور ڈاون ٹاون کے رہائشیوں نے بتایا کہ گذشتہ چار دنوں کے دوران ٹرکوں اور مختلف دیگر گاڑیوں کے ذریعے سینکڑوں کی تعداد سیکورٹی فورسز اہلکاروں کو وہاں پہنچا دیا گیا۔
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ حکومت علاقہ میں مزید سیکورٹی فورس بنکر قائم کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے ۔ بالائی شہر میں کرفیو کو سختی کے ساتھ نافذ کرنے کے لئے سیکورٹی فورسز اور ریاستی پولیس کی تعیناتی بدستور جاری رکھی گئی ہے ۔
قومی شاہراہ پر پانتھہ چوک سے لیکر شالہ ٹینگ تک مال بردار گاڑیوں کی آزادانہ نقل وحرکت کو یقینی بنانے کے لئے سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات کر رکھی گئی ہے ۔
جنوبی کشمیر کی صورتحال میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہورہی ہے ۔ اگرچہ انتظامیہ کے مطابق کرفیو کا نفاذ صرف جنوبی کشمیر کے قصبہ اننت ناگ میں جاری ہے ، تاہم دیگر حصوں کے رہائشیوں نے الزام عائد کیا کہ انہیں اپنے گھروں سے باہر آنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے ۔