بیجنگ ۔چین گذشتہ سال سے کثیر تعداد میں مسلمانوں کو نظربندی کیمپس میں روانہ کررہا ہے جہاں وہ ان پر دباؤ ڈالتا ہیکہ وہ اسلام ترک کردیں اور کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ ہوجائیں۔ نیویارک ٹائمس اور دیگر ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے بموجب تقریباً 10 لاکھ مسلمان ان کیمپس میں محروس ہیں۔ ایک تخمینہ کے بموجب اقوام متحدہ اور امریکی عہدیدار اپنے بیانات میں اس کا حوالہ دے چکے ہیں۔ تاہم چین نے اس بات کی تردید کی ہیکہ اس کا مقصد کیمپس میں مسلمانوں کے فلسفہ کو تبدیل کرنا ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک کمیٹی کے بموجب یہ ازسرنو تعلیم دینے کے مراکز نہیں ہیں حالانکہ حکومت چین کی اپنی دستاویزات میں ان کا حوالہ ازسرنو تعلیم دینے کے مراکز کی حیثیت سے کیا گیا ہے۔ چین کا دعویٰ ہیکہ یہ کیمپ صرف فنی مہارت کے اسکولس برائے مجرمین اور صحافی ہیں۔ صحافی ان کو حکومت چین کی انتہائی حفاظتی انتظامات کے تحت قائم مقامات سے دور رکھنے کی کوشش قرار دیتے ہیں۔ ایک چینی محقق ٹموتھی گرود جو اس کوشش میں شامل ہیں۔ یہ ایک عملی اعتبار سے سراغ رسانی کے نام کی خصوصیت والی کوشش قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کو افتتاحی تقریب کی تصاویر حاصل ہوئی ہیں جبکہ ژنجیانگ میں حال میں تعمیر شدہ ایسے اسکولس کا افتتاح کیا گیا۔ حکومت مقامی کے
ذرائع ابلاغ کے بیان میں یہ تصاویر شائع کی گئی ہیں۔ عہدیداروں کو ایک پھاٹک کے روبرو کھڑا ہوا دیکھا جاسکتا ہے۔ گیٹ پر واضح طور پر چینی زبان میں تحریر ہیکہ ’’چینی اور ایغور ازسرنو تعلیم کا مرکز‘‘ یوروپی اسکولس برائے تمدن و مذہبیات جرمنی کے یوروپی اسکول کے ایک محقق عدنان زینز نے ایسے 70 سے زیادہ اسکولس کا پتہ چلایا ہے اور ان کی فہرست تیار کی ہے۔ کئی کوششوں سے ان کے احاطوں کی نشاندہی ہوتی ہے جن میں ان اونچی دیواریں، نگرانکار مینار، خاردار تار، جاسوسی کے نظام موجود ہیں۔ اس کے علاوہ مسلح پولیس فورس ان کی حفاظت پر تعینات ہے۔ دیگر صیانتی خصوصیات بھی موجود ہیں۔ 29 سالہ چینی قانون کے طالب علم ساکن کینیڈا سان ژانگ ایک اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ انہوں نے ژن جیانگ میں جو کچھ ہورہا ہے اس کی معلومات حاصل کرنے کی انٹرنیٹ سرچنگ کے ذریعہ کوشش کی ہے۔
انہوں نے ازسرنو تعلیم دینے کے مراکز کے بارے میں معلومات بیدو اور گوگل استعمال کرتے ہوئے حاصل کی ہیں۔ انہوں نے بھی دیکھا کہ تعمیری کوششیں جن میں سے بیشتر مخصوص مقامات پر جاری ہیں، جہاں کیمپس تعمیر کئے جائیں گے۔ اس کے بعد انہوں نے ایک اور اقدام کیا۔ انہوں نے محل وقوع کے بارے میں گوگل ارتھ پر معلومات تلاش کیں اور انہیں سٹلائیٹ کی تصاویر حاصل ہوئیں جو کیمپ کی معلوم ہوتی تھیں۔ سٹلائیٹ کی تصاویر دیکھنے سے ان کو یقین ہوگیا کہ حقیقت میں یہ ممکن ہیکہ مسلمانوں کو چین میں اجتماعی طور پر حراست میں رکھا جارہا ہے اور بعض کیمپ مسلسل توسیع پذیر ہیں۔ تاہم چین اس کی تردید کرتا ہے۔ اگست میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی نے اطلاع دی ہیکہ 10 لاکھ مسلمان چین میں اجتماعی نظربندی کیمپ ژنجیانگ میں زبردستی رکھے گئے ہیں۔ یہ مغربی چین کا ایک خوداختیار علاقہ ہے جہاں پر تقریباً ایک کروڑ ایغور مسلمان بستے ہیں۔