واشنگٹن۔ امریکہ ایران کے جوہری معاہدہ کی حمایت کو مجبور. امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے بارے میں نئی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے ایران کی ایک بھیانک تصویر کھنچی ہے۔ ایک ایسے ظالم اور دقیانوسی ملک کی جو ایک انقلابی سوچ کے تحت امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر ہر موڑ پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔سابق صدر براک اوباما کی انتظامیہ نے نرمی جو رویے کے برعکس ارب پتی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کا گلہ دبانے پر تلی ہوئی ہے تاکہ جوہری معاہدے کو سو فیصد موثر بنایا جا سکے اور ایران کے خطے میں اثر و رسوخ کا توڑ کیا جا سکے۔
ایران کے خلاف اس سخت گیر رویے کا اپنی سیاسی بنیاد کو مضبوط کرنے کے علاوہ ڈونلڈ ٹرمپ کا کیا مقصد ہو سکتا ہے؟ یہ کسی حد تک اوباما کی پالیسی سے مختلف ہے؟ اور اس کے کیا ممنکہ نتائج نکل سکتے ہیں؟ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی ٹرمپ کی طرف سے سختی سے مخالفت کو دیکھتے ہوئے جو چیز قابل حیرت ہے وہ یہ کہ امریکہ اس معاہدے سے نکل نہیں رہا۔ امریکہ کا صدر بڑی آسانی سے ایران کے خلاف جوہری پابندیاں بحال کرسکتا تھا اور اس کے لیے انھیں کیپیٹل ہل یا پارلیمان سے رجوع کرنے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔اس کے باوجود انھوں نے جوہری معاہدے کو کانگریس کی جھولی میں ڈال دیا ہے۔
وہ واضح طور پر یہ چاہا رہے ہیں اور کانگریس کے سرکردہ رہنما پہلے سے ہی امریکی قوانین میں ایسی ترامیم پر کام کر رہے ہیں جن کے بعد ایران ان ترامیم میں متعین کردہ کوئی بھی اقدام کرے گا تو خود بخود اس پر پابندیاں لاگو ہو جائیں گی۔اس قسم کا تاثر بھی موجود ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ کانگریس اس معاہدے کے تحت چند پابندیاں جن کے اٹھائے جانے کے وقت کا تعین کر دیا گیا ہے اور جن کو اس معاہدے کے تحت ’سن سیٹ‘ شقوں کا نام دیا گیا انھیں بے معنی بنا دیا جائے ان اقدامات سے مشروط کر دیا جن کے اٹھاتے ہیں ایران پر خودبخود پابندیاں عائد ہو جائیں۔
دراصل اندرونی یا ملکی قوانین کے سہارے یہ ایک کثیرالملکی معاہدے کو بدلنے کی کوشش ہو گی۔اس راستے میں سفارتی مشکلات آئیں گی۔ اس کی وجہ سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں میں اختلاف پیدا ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ واشنگٹن کی ماسکو اور بیجنگ سے بھی کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔مزید براں عالمی سطح پر یہ سوال بھی اٹھنے لگے گا کہ جب بات بین الاقوامی معاہدات کی ہو گی تو واشنگٹن کی زبان پر کس حد تک اعتبار کیا جا سکتا ہے۔شمالی کوریا کو اس سے کیا سبق ملے گا جس کو امریکہ کے اپنے وزیر خارجہ مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش میں سرگرداں ہیں۔
ٹرمپ نے ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کی افادیت کے بارے میں بھی کوئی خوش کن تصویر پیش نہیں کی اور ایک موقع پر یہ بھی کہا تھا کہ ایران کے ساتھ یہ معاہدہ اور پابندیاں ایسے وقت اٹھائی گئیں جب ایران کی حکومت دھڑام سے زمین پر آنے والی تھی۔