نئی دہلی: مسلم پرسنل لا بیداری مہم وقت کی اہم ترین ضرورت۔ہے۔ مسلمان دنیا کے کسی بھی گوشے میں رہے ہوں، اقلیت میں رہے ہوں یا اکثریت میں عرب میں رہے ہوں یا عرب کے باہر، ہمیشہ انھوں نے مسلم پرسنل لا پر عمل کیا ہے۔
ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی ہند کے امیر مولانا سید جلال الدین عمری نے مسلم پرسنل لا بیداری مہم کی افتتاحی پریس کانفرنس میں کیا۔ پریس کلب آف انڈیا میں نامہ نگار سے خطاب کرتے ہوئے مولانا عمری نے مزید کہا کہ ہم ملک میں ،بالخصوص مسلمانوں میں پرسنل لا کے تعلق سے جو ناواقفیت پائی جاتی ہے،
کوشش کی جائے گی کہ ان تمام لوگوں تک اسلامی تعلیمات پہنچائیں۔ مولانا عمری نے کہا کہ موجودہ وقت میں اسلامی قوانین اور اسلامی احکامات غلط فہمی کی بنا پر اعتراضات کیے جا رہے ہیں مہم کے دوران ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
مولانا عمری نے یہ بھی کہا کہ مسلمان کبھی بھی مسلم پرسنل لا میں کسی بھی طرح کے مداخلت کو برداشت نہیں کر یں گے۔ اس سلسلے میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے دستخط کرکے حکومت کے ذریعہ مسلم پرسنل لا میں کسی بھی طرح کی مداخلت کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔
مسلمان کبھی بھی احکام الٰہی سے بغاوت نہیں کر سکتے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ مسلم پرسنل لا میں کسی بھی طرح کی مداخلت سے گریز کرے۔ مولانا عمری نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ آج مسلم معاشرہ نکاح ، طلاق،وراثت، مہرو نفقہ اور مسلم پرسنل لا سے متعلق دیگر امورمیں مکمل طور پر شریعت پر گامزن ہو تو وہ نہ صرف امن و سکون کا گہوارہ بن سکتا ہے، بلکہ برادران وطن بھی اسلام کے عائلی قوانین کی افادیت، فطرت انسانی سے اس کی مطابقت اور انسانی زندگی میں اس کے ثمرات سے واقف ہو کر اس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔
مولانا نے یہ بھی فرمایا کہ اگر مسلمانوں کو اسلام کے عائلی قوانین اور احکام سے کما حقہ واقف کرا دیا جائے، مسلمان شرعی قوانین کی خلاف ورزیوں سے گریز کرنے لگیں اور ان کی زندگیاں قانون شریعت کے مطابق گزرنے لگیں تو ایک مستحکم خاندان اور ایک پاکیزہ معاشرہ وجود میں آئے گا جس کی برکات سے دیگراہل ملک بھی مستفید ہو سکیں گے۔
جماعت اسلامی ہند ، 23؍ اپریل تا 7؍ مئی 2017تک ایک کل ہند مہم [ مسلم پرسنل لا بیداری مہم منانے جا رہی ہے۔ جس کا مقصد مسلم معاشرے کی اصلاح اور امت کو عائلی زندگی سے متعلق احکام اور قوانین سے واقف کرانا ہے۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کی عائلی زندگی میں جو بگاڑ پیدا ہو رہے ہیں یا اسلامی احکام و قوانین کی کھلی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، ان کے ازالہ کی تدابیر اختیار کرنا اور مسلمانوں کو اس بات پر آمادہ کرنا کہ وہ اپنے عائلی تنازعات کو شریعت کے مطابق اور شرعی عدالتوں کے ذریعہ ہی فیصلہ کروائیں۔