کراچی۔ پاکستان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں توہہین رسالت کے الزام میں طالب علم مشعل خاں کا قتل کر دیا گیا۔ پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے شہر مردان میں واقع عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشتعل طلبا کے ہاتھوں توہین رسالت کے الزام پر ہلاک ہونے والے طالب علم مشعل خان کی تدفین کر دی گئی ہے جبکہ یونیورسٹی غیر معینہ مدت کے لیے بند ہے۔ مشعل خان کی تدفین جمعے کو صوابی میں ان کے گاؤں زیدا میں کی گئی۔
خبر کے مطابق مشعل خان کے جنازے میں 400 سے 500 افراد شریک تھے۔ واضح رہے کہ مشعل کو جمعرات کو توہین رسالت کے الزام پر مردان میں ان کی یونیورسٹی کے مشتعل طلبا نے تشدد کر کے ہلاک کردیا تھا۔ پولیس حکام کے مطابق مقامی پولیس جب یونیورسٹی پہنچی تو مشتعل مظاہرین مقتول کی لاش جلانے کی کوشش کر رہے تھے۔
ڈی پی او مردان ڈاکٹر میاں سعید احمد نے کہا کہ پولیس نے لاش اپنی تحویل میں لی اور اسے ہسپتال منتقل کیا۔ طالب علم کی ہلاکت کا مقدمہ تھانہ شیخ ملتون میں درج کیا گیا ہے اور ڈی پی او کے مطابق واقعے کے بعد سرچ آپریشن کے دوران 59 مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق یہ جھگڑا مبینہ گستاخانہ گفتگو کی بنیاد پر شروع ہوا تھا جس پر کچھ طالب علم مشتعل ہوگئے اور انھوں نے مشعال کو ہلاک جبکہ ان کے دو ساتھیوں کو شدید زخمی کر دیا۔ اس واقعے کے بعد عبدالولی خان یونیورسٹی اور مردان شہر میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔
گورنر خیبر پختونخوا نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔ ہلاک ہونے والے طالب علم مشعل خان یونیورسٹی کے شعبۂ صحافت میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ ان کے ایک استاد نے بتایا کہ انھیں یقین نہیں آ رہا کیونکہ مذکورہ طالب علم سے انھوں نے ایسی کوئی بات کبھی نہیں سنی تھی۔ ایک عینی شاہد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مشعل کچھ عرصہ ملک سے باہر بھی گزار چکا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ مشتعل ہجوم نے پہلے تو مشعل کے دوستوں کو مارنا شروع کیا تاہم وہاں موجود چند لوگوں نے جب انھیں بتایا کہ ان میں سے کوئی بھی مشعل نہیں تو ان افراد نے ان دو طالب علموں کو شدید زخمی کرنے کے بعد چھوڑ دیا۔ اطلاعات کے مطابق بعد میں چند طالب علموں نے مشعل کو ڈھونڈ کر پہلے تو مبینہ طور پر گولیاں ماریں اور پھر مبینہ طور پر ان کی لاش کو گھسیٹے ہوئے لے کر آئے۔