نئی دہلی : اسمبلی انتخابات کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بات چیت کا دروازہ کھلنے کی توقع ہے۔ آئندہ ماہ اتر پردیش سمیت پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات مکمل ہونے کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بات چیت کا دروازہ پھر سے کھلنے کی توقع ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق ہندوستانی سفارتی گلیاروں میں حکومت پاکستان کی طرف سے حال ہی میں کئے گئے اقدامات کو مثبت نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ ہندوستان بار بار کہتا رہا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ تمام مسائل پر بات کرنے کو تیار ہے لیکن بات چیت دہشت گردی کے سائے میں نہیں ہو سکتی ہے۔ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف ٹھوس قدم اٹھانا ہوگا۔ ذرائع کے مطابق لشکر طیبہ کے سرغنہ حافظ سعید کو پاکستانی قانون کے مطابق دہشت گرد درج کئے جانے ، غلطی سے کنٹرول لائن پار کرنے والے ہندوستانی فوجی چندو چوہان کو واپس بھیجنے، لال شہباز قلندر کی درگاہ پر بم دھماکہ کے بعد دہشت گردوں کے خلاف ایکشن، ہندوستان میں تعینات ہائی کمشنر عبدالباسط کی جگہ تہمینہ جنجوعہ کو خارجہ سکریٹری بنانے جیسے چند فیصلوں اور پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کے حالیہ بیانات کے بعد بات چیت کی کھڑکی کھلنے کے آثار پیدا ہورہے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ پاکستانی وزیر اعظم نے ہندوستان سے بات چیت کا ماحول بنانے میں مددگار چند اقدامات کئے ہیں۔ممبئی، پٹھان کوٹ اور اڑي حملوں کے سلسلے میں کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں هونے کے باوجود حافظ سعید اور اس کے ساتھی قاضی کاشف کے نام کو پنجاب حکومت کے انسداد دہشت گردی قانون کے چوتھے باب میں شامل کر دیا گیا ہے۔ پاکستان وزارت داخلی سلامتی نے انسداد دہشت گردی محکمہ کو حافظ سعید اور اس کے ساتھیوں کے خلاف ضروری کارروائی کی ہدایت دی ہے۔ اس سے پہلے حافظ سعید اور اس کے چار رفقاء 30 جنوری سے نظر بند کئے جا چکے ہیں۔
ہندوستان نے اپنے رسمی ردعمل میں ان حملوں کی سازش میں ملوث حافظ سعید کو انسداد دہشت گردی قانون کے تحت درج کئے جانے کو پہلا مثبت اور منطقی قدم قرار دیتے ہوئے خیر مقدم کیا ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سوروپ نے کہا کہ حافظ سعید ایک بین الاقوامی دہشت گرد ہے۔ وہ ممبئی حملے کا محرک ہے اور لشکر طیبہ اور جماعت الد عوہ وغیرہ تنظیموں کے ذریعے سے پاکستان کے ہمسایہ ممالک میں دہشت گردی پھیلانے کا ذمہ دار ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق اس کے اور اس کے ساتھیوں کے خلاف سخت کارروائی انہیں قانون کے شکنجے میں لانے اور علاقے کو دہشت گردی اور پرتشدد بنیاد پرستی سے نجات دلانے کی سمت میں پہلا منطقی قدم ہے۔
ہندوستان سمجھتا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں تلخی پیدا کرنے میں پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط بھی ذمہ دار ہیں۔مئی 2014 میں وزیراعظم نواز شریف سے وزیر اعظم نریندر مودی کی بات چیت میں ہونے والے اتفاق رائے کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان خارجہ سکریٹری کی سطح پربات چیت سے پہلے حریت رہنماؤں کو بات چیت کے لئے مدعو کرنے سے لے کر پاکستانی خارجہ سکریٹری اعجاز احمد چودھری کے دورہ ہند کے دوران ٹوئٹر جنگ کے پیچھے مسٹر عبدالباسط کو ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔ستمبر 2016 میں ہندوستانی فوج کی طرف سے سرحدپار دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر سرجیکل اسٹرائک کئے جانے کے بعد نئی دہلی سے مسٹر عبدالباسط کی بھی رخصتی ہو گئی۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسٹر عبدالباسط پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے دور میں راولپنڈی سے ہدایات لیتے تھے۔ ادھر پاکستانی وزیر اعظم بھی مسٹر عبدالباسط کی کار ستانیوں سے عدم اطمینانی محسوس کر رہے تھے۔