سوئڈن۔ سوئڈن کی حکومت نے ایران کے دورے پر اپنی خواتین اہلکاروں کے حجاب پہننے کے فیصلے کا دفاع کیا ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ ایسا نہ کرنا مقامی قوانین کی خلاف ورزی ہوتی۔ گذشتہ ہفتے ایرانی وزیرِ تجارت این لِند کی قیادت میں ایک تجارتی ٹیم نے ایران کا دورہ کیا تھا اور ان کے حجاب پہننے پر انھیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ سوئڈن کا کہنا ہے کہ ان کے ملک میں دنیا کی پہلی فیمنسٹ یعنی حقوقِ نسواں کے لیے مخصوص طور پر کام کرنے والی حکومت ہے۔
ایران میں خواتین کے حقوق کے کام کرنے والی ایک معروف کارکن اور سوئڈن کی سیاسی شخصیات نے اس فیصلے کی تنقید کی ہے۔ سوئڈن کی لبرل پارٹی کے چیف یان جورکلند کا کہنا ہے کہ یہ اقدام فیمنسٹ خارجہ پالیسی کے لیے انتہائی نقصان دے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایران قانون سازی کے ذریعے خواتین کے ساتھ ناانصافی کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سوئڈن کو چاہیے تھا کہ وہ ایرانی حکومت سے کہتا کہ ان کے وفد کی خواتین اراکین کو حجاب پہننے سے استثنیٰ دی جاتی اور افر اس درخواست کو تسلیم نہ کیا گیا ہوتا تو تجارتی معاہدوں کو سوئڈن یا کسی تیسرے ملک میں طے کیے جانا چاہیے تھا۔
تاہم وزیرِ تجارت این لِند نے ایک مقامی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایرانی قوانین کی خلاف ورزی کرنے کو تیار نہیں تھیں اور اس کا واحد متبادل یہ تھا کہ اس وفد میں صرف مردوں کو بھیجا جاتا۔ اس موقعے پر سوئڈن کے وزیراعظم سیفن لوفن بھی ایران میں موجود تھے اور ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے انسانی حقوق کے معاملے کو ایرانی صدر حسن روحانی سے سامنے اٹھایا تھا۔
یاد رہے کہ 2015 میں سابق امریکی صدر براک اوباما کی اہلیہ نے سعودی عرب کے بادشاہ عبداللہ کی وفات کے موقعے پر ملک کے دورے کے دوران حجاب نہیں پہننا تھا تاہم دیگر متعدد خاتون سربراہان اور وفود نے ماضی میں ایسا کیا تھا۔ ایران کے برعکس سعودی عرب میں غیر ملکی خواتین کا حجان پہننا ضروری نہیں۔ سوئڈن کی وزیرِ تجارت این لِند کا کہنا ہے کہ وہ سعودی عرب کے اپنے آئندہ دورے پر حجاب نہیں پہننیں گی۔