واشنگٹن۔ امریکی اپیل کورٹ نے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے سات اسلامی ملکوں کے شہریوں پر عائد سفری پابندیاں بحال کرنے کی اپیل مسترد کر دی ہے۔ اس اپیل کا مقصد جمعے کو دیے جانے والے فیصلے کو پلٹنا تھا جسے ریاست واشنگٹن کے ایک وفاقی جج نے صادر کیا تھا۔ ریاستی وکلا کا کہنا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ کا سات اسلامی ملکوں کے شہریوں پر پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ غیر آئینی اور تعصبانہ ہے۔
ریاست واشنگٹن کے شہر سیئٹل کے فیڈرل جج نے حکومتی وکلا کا دعویٰ مسترد کر دیا کہ ریاستوں کے پاس صدر ٹرمپ کے انتظامی حکم نامے کو چیلنج کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ اس سے قبل ٹرمپ انتظامیہ کے انتظامی حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ عراق، شام، ایران، لیبیا، صومالیہ، سوڈان اور یمن سے کوئی بھی شخص 90 دنوں تک امریکہ نہیں آ سکے گا۔ اس فیصلے کے خلاف امریکہ اور امریکہ کے باہر بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے اور امریکی ہوائی اڈوں پر افراتفری نظر آئی۔
واشنگٹن، میامی اور امریکہ کے دوسرے شہروں کے علاوہ یورپ کے بعض شہروں میں بھی گذشتہ روز سنیچر کو ٹرمپ کے اعلان کے بعد مظاہرے ہوئے۔ لندن میں ہزاروں افراد نے ٹرمپ کے خلاف مظاہرے کیے جبکہ پیرس، برلن، سٹاک ہوم اور بارسلونا میں بھی مظاہرے کیے گئے۔ دوسری جانب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے ان مظاہروں کی مخالفت میں مظاہرے کیے۔
صدر ٹرمپ کے حکم کے بعد تقریباً 60 ہزار ویزے منسوخ کر دیے گئے تھے لیکن جج جیمز روبارٹ کے عبوری فیصلے کی رو سے فوری طور پر ملک گیر سطح پر اس حکم نامے کو معطل کر دیا۔ گذشتہ روز صدر ٹرمپ نے جج روبارٹ کے فیصلے کو ‘مضحکہ خیز’ قرار دیتے ہوئے پابندی کو لاگو کرنے کا عزم کیا تھا۔ خیال رہے کہ سیئٹل کے ایک جج نے جمعے کو سات مسلم اکثریت والے ممالک کے لوگوں کے امریکہ آنے پر پابندی لگانے کے ٹرمپ انتظامیہ کا فیصلہ معطل کر دیا تھا۔
اسی حکم کے تحت امریکہ میں پناہ گزینوں کے داخلے کے پروگرام کو 120 دنوں کے لیے معطل کر دیا گیا تھا۔ ساتھ ہی شامی پناہ گزینوں کے امریکہ آنے پر غیر معینہ مدت کے لیے پابندی لگا دی گئی تھی۔ لیکن جج کے فیصلے کے بعد امریکی کسٹمز کے حکام نے امریکی فضائی کمپنیوں سے کہا ہے کہ جب تک معاملہ عدالت میں ہے، وہ پابندی سے متاثرہ ممالک کے شہریوں کو امریکہ لا سکتے ہیں۔ اس فیصلے کے بعد بہت سی فضائی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے ان سات ملکوں سے مسافروں کو امریکہ لے جانے کے لیے پروازیں شروع کر دی ہیں۔ تاہم ٹرمپ انتظامیہ اگر اس فیصلے کے خلاف ہنگامی حکمِ امتناعی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو یہ سلسلہ پھر رک سکتا ہے۔