دہلی : معروف شاعر اور جامعہ ملیہ یونیورسٹی کے پریفیسر بیکل اتساہی چل بسے۔ اردو کے معروف اور طرح دار شاعر بیکل اتساہی کا دہلی میں 88 سال کی عمر میں انتقال ہو گیا ہے۔ دہلی کی جامعہ ملیہ یونیورسٹی کے پروفیسر اور معروف شاعر شہپر رسول نے ان کی موت کی تصدیق کی۔ وہ ایک عرصے سے علیل تھے لیکن دو روز قبل انھیں دہلی کے رام منوہر لوہیا ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ پروفیسر شہپر رسول نے انھیں ‘شاعروں کے پریم چند’ کے طور پر یاد کیا۔ انھوں نے کہا کہ ‘بیکل اتساہی نے اپنی شاعری کے ذریعے دیہات کے مسائل اور دیہات کے حسن کو پیش کیا ہے۔’ بیکل اتساہی اترپردیش کے قصبے بلرام پور میں سنہ 1928 میں پیدا ہوئے تھے۔
ہندوستان کے مشاعروں میں نظامت کے فرائض انجام دینے کے لیے مشہور شاعر معین شاداب نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ مشاعروں کی کلاسیکی روایت کے حامل چند بزرگ ترین شاعروں میں تھے، جو اب نہیں رہے۔ مرحوم کا یہ شعر ” سب کے ہونٹوں پہ تبسم تھا مرے قتل کے بعد , جانے کیا سوچ کے روتا رہا قاتل تنہا ” زباں زد عام تھا۔
بیکل اتساہی کا اصل نام محمد شفیع خان تھا۔ پہلے وہ بیکل وارثی بنے پھر بیکل اتساہی بن گئے۔ ان کے بیکل اتساہی بننے کا واقعہ قدرے سیاسی ہے۔ انھوں نے انڈیا کے پہلے وزیر اعظم کے سامنے ایک نظم ‘کسان بھارت کا’ پڑھی اور اس قدر جوش کے ساتھ پڑھی کہ جواہر لال نہرو یہ کہہ اٹھے کہ ‘یہ ہمارا اُتساہی (جوشیلا) شاعر ہے’ اور اس کے بعد بیکل وارثی بیکل اتساہی بن گئے۔
وہ کانگریس کے رکن رہے اور اندرا گاندھی کے معتمدین میں شامل رہے۔ انھیں ایوان بالا کا رکن نامزد کیا گیا اور سنہ 1976 میں انھیں ادب کی خدمات کے لیے اعلیٰ شہری اعزاز ‘پدم شری’ سے نوازا گیا۔ بیکل اتساہی کے ساتھ اپنی دیرینہ رفاقت کا ذکر کرتے ہوئے معروف شاعر گلزار دہلوی نے بتایا: ‘وہ انتہائی حلیم شخص تھا۔’انھوں نے بتایا کہ بیکل ان سے عمر میں چھوٹے تھے اور گذشتہ 60 کے دوران دونوں نے ملک اور بیرون ملک کے بہت سے سفر کیے۔ ‘جب بیکل اتساہی عارف جلالی سے اصلاح لے رہا تھا اس وقت سے میری اس کی رفاقت ہے۔’
بیکل اتساہی کو ہندوستان میں مشاعرے کی کلاسیکی روایت کے امین کے طور پر یاد کیا جائے گا۔ گلزار دہلوی نے انھیں انتہائی متین اور شریف انسان بتایا اور انھیں ‘ہندو مسلم اتحاد کے علم بردار’ کے طور پر یاد کیا۔
معین شاداب نے بیکل اتساہی کو ‘مذاہب اور مسالک کے درمیان پل’ قرار دیا، جبکہ پروفیسر شہپر رسول نے کہا کہ ‘انھیں غزل کی بجائے گیت اور اودھی اور اردو کے امتزاج کے لیے یاد رکھا جائے گا۔’ انھوں نے بتایا: ‘اس وقت بیکل اتساہی اور وسیم بریلوی شہرت کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے اور مترنم شاعروں کے طور پر ان کا شور تھا۔ انھوں نے غزل کی شاعری کی ہے۔ گیت اور اودھی اردو کے خوبصورت امتزاج کے لیے انھیں یاد کیا جائے گا۔’