شام میں چھ سال سے جاری خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے ایک نئی اور انوکھی شرط رکھی ہے اور کہا ہے کہ اس بات کا تعین کیا جائے کہ آیا شام میں لڑائی کا آغاز کس نے کیا ہے؟ انہوں نے اسد رجیم کی طرف سے پرامن مظاہرین پر طاقت کے وحشیانہ استعمال کو نظر انداز کردیا جو پرامن تحریک کو مسلح خانہ جنگی کی طرف لے جانے کا اہم سبب بنا تھا۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق فن لینڈ کے صدر ساؤلی نینیسٹو سے تہران میں ملاقات کے دوران کہا کہ شام کے بحران کے حوالے سے ایران کا موقف واضح اور منطقی ہے۔ ایران شامی عوام اور حکومت کے ساتھ کھڑا ہے۔
خبر رساں ادارے’ایسنا‘ کے مطابق سپریم لیڈر نے الزام عاید کیا کہ بعض ممالک شام میں نظام حکومت تبدیل کرنے پر مُصر ہیں۔ شام میں جنگ ختم کرنے سے قبل اس امر کا تعین ہونا چاہیے کہ آیا لڑائی شروع کس نے کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ عراق اور ایران کے درمیان آٹھ سال تک جنگ جاری رہی۔ آخرکار آیت اللہ خمینی کی شرائط پر جنگ بند ہوئی تھی۔
خیال رہے کہ ایران شام میں بشارالاسد کی حکومت کو کھلے عام مالی اور عسکری مدد فراہم کرتا چلا آ رہا ہے۔ ایران نے شامی اپوزیشن کو کچلنے میں اپنے کٹھ پتلی بشارالاسد کی نہ صرف مادی اور معنوی مدد کی بلکہ پاسداران انقلاب اور شیعہ عسکری گروپوں کے جنگجو بھی شام بھیجے جنہوں نے ہزاروں بے گناہ شہریوں کا قتل عام کیا ہے۔ ادھر ایک دوسری پیش رفت میں ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے کہا ہے کہ شام، ایران اور روس کل جمعہ کو ماسکومیں اہم اجلاس میں شرکت کررہے ہیں۔ اس اجلاس میں ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف، ان کے روسی ہم منصب سیرگی لافروف اور شام کے ولید المعلم شرکت کریں گے۔