ممبئی۔ مجید میمن ایڈوکیٹ کا خیال ہے کہ طلاق ثلاثہ کے معاملے میں صرف مسلم خواتین کی ہی رائے لی جائے کیونکہ ملک میں 22؍ کروڑ سے زائد مسلم آبادی کا نصف سے کم حصہ مسلم خواتین پر مشتمل ہے اور طلاق ثلاثہ سے متاثر ہونے والی صرف خواتین ہی ہیں معروف ایڈوکیٹ و رکن پارلمینٹ مجید میمن نے مزید کہا کہ مرکزی مودی حکومت نے طلاق ثلاثہ اور یونیفارم سول کوڈ کا جو شوشہ چھوڑا ہے وہ غیر دستور ی ہے کیونکہ آئین ہند کے ارٹیکل 44؍ کے مطابق ریاستی حکومتوں کو یونیفارم سول کوڈ تشکیل کیئے جانے کی صرف شفارش کی گئی جبکہ یہ حکومت پر لازمی نہیں ہے کہ وہ ہندوستان میں رہنے والی مختلف قوموں اور برادری کے لیئے یکساں سول کوڈ تشکیل دے ۔
مجید میمن میں ممبئی میں جاری اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ کسی بھی حکومت کے طریقہ کار میں اس کی ترجیحات شامل ہوتی ہیں نیز ترجیحات آئین ہند کے آرٹیکل 21؍ کے مطابق طئے کی جاتی ہے جس کی سپریم کورٹ نے اپنے درجنوں فیصلوں میں تشہیر کی ہے جس کی رو سے شہریوں کو حق زندگی مہیا کرنا ، بنیادی سہولیات مہیا کرنا ، تعلیم اور دیگر سہولیات وغیرہ مہیا کرنا شامل ہے ۔
مجید میمن نے کہا کہ یکساں سول کوڈ کی بات کرنے والا آرٹیکل ۴۴؍ مرکزی حکومت پر لازمی نہیں ہے جبکہ آرٹیکل 21؍ پر عمل درآمد کرنے کے لیئے حکومت جواب دہ بھی ہے اور پابند بھی ہے مگر افسوس کے مرکزی حکومت شہریوں کو بنیاد ی سہولیات دینے ، مہنگائی کو قابو کرنے اور دیگر عوامی محاز پر ناکام ثابت ہوئی ہے نیز اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیئے وہ یکساں سول کوڈ اور ٹریپل طلاق کو ہوا دے رہی ہے تاکہ ملک میں فرقہ واریت میں اضافہ ہو اوراسے ہندؤں کو فائدہ حاصل ہو ۔
مجید میمن نے کہا کہ 2014میں جب وزیر اعظم نریندر مودی نے حلف اٹھایا تھا اس وقت انہوں نے پارلمینٹ کے دونوں ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ سب کا ساتھ سب کا وکاس کیا جائے گا اور ملک کے آخری کونے پر بیٹھے ہندوستانی کی بھی ترقی کے لیئے اقدامات کیئے جائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں چند ہی مسلم اراکین پارلیمنٹ ہیں جو مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہیں نیز وزیر اعظم کے اس بیان سے انہوں نے یہ محسو س کیا تھا کہ ایک موقع بی جے پی کو بھی دیا جانا چاہئے لیکن اپنے نصف دور اقتدار میں ہی بی جے پی نے لؤ جہاد، گھر واپسی،دادری ، رام زادے اور اس قسم کے کئی ایک فرقہ وارانہ معاملات کو اچھالا اور اس پر وزیر اعظم نریندر مودی نے لب کشائی بھی نہیں کی ۔
مرکزی حکومت کی جانب سے تین طلاق پر داخل کیئے گئے حلف نامہ پر سخت لفظوں میں تنقید کرتے ہوئے کہا کہ طلاق کے معاملے میں اسٹیک ہولڈر صرف مسلم خواتین ہی ہے لہذا مرکزی لاء کمیشن کو ملک کی دیگراقوام کی خواتین سے طلاق ثلاثہ کے بارے میں نہیں دریافت کرنا چاہئے بلکہ صرف اور صرف مسلم خواتین سے یہ دریافت کرنا چاہئے کہ آیا وہ مرکزی حکومت کے اس فیصلہ کو شریعت میں مداخلت مانتی ہے یا نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی ننانوے فیصد سے زائد مسلم خواتین طلاق ثلاثہ کے معاملے میں داخل کیئے گئے نریند ر مودی سرکار کے حلف نامہ کو شریعت میں مداخلت سمجھتی ہے اور مسلمان شریعت میں مداخلت سے کبھی سمجھوتا نہیں کریگا۔ این سی پی رکن پارلمینٹ مجید میمن نے کہا کہ وہ اس سلسلہ میں لاء کمیشن کے چیرمین جسٹس چوہان سے اگلے ہفتہ ملاقات کریں گے اور انہیں ملک کے مسلمانوں کے جذبات سے واقف کریں گے ۔