سری نگر: وادی کشمیر کے سبھی علاقوں سے کرفیو ہٹانے کے اعلان کے ایک روز بعد انتظامیہ نے جمعرات کو گرمائی دارالحکومت سری نگر کے قلب تاریخی لال چوک کی طرف جانے والی تمام سڑکوں کو ایک بار پھر خاردار تار سے سیل کردیا۔ اس کے علاوہ سیول لائنز میں چند دیگر سڑکوں کو بھی خاردار تار سے بند کردیا گیا ہے ۔اگرچہ تاریخی لال چوک کی طرف جانے والی سڑکوں پر کھڑی کی گئی رکاوٹوں پر تعینات سیکورٹی فورس اور ریاستی پولیس کے اہلکار کسی بھی گاڑی یا اسکوٹر کو لال چوک کی طرف جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے ، تاہم راہگیروں کو نقل وحرکت کی اجازت دی جارہی تھی۔ تاریخی لال چوک اور اس کے گردونواح کے علاقوں میں جمعرات کو سیکورٹی فورسز اور ریاستی پولیس کی اضافی جمعیت بھی تعینات کردی گئی تھی۔ لال چوک کی طرف جانے والی سڑکوں کو ظاہری طور پر علیحدگی پسند قیادت کی طرف سے جمعرات کے لئے دیے گئے پروگرام کے پیش نظر بند رکھا گیا تھا۔ علیحدگی پسند قیادت سید علی گیلانی، میرواعظ مولوی عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے اپنے احتجاجی کلینڈر میں آج لوگوں کو سرکاری نشریاتی اداروں ‘دوردرشن اور ریڈیو کشمیر’ کے علاوہ ریاستی حکومت کے محکمہ اطلاعات کی طرف جانے والی تمام سڑکیں بند کرنے کے لئے کہا تھا ۔
انتظامیہ نے احتیاطی اقدامات کے طور پر آج سرکاری نشریاتی اداروں اور محکمہ اطلاعات کے احاطوں کے اردگرد سیکورٹی فورسز اور ریاستی پولیس کے اہلکاروں کی اضافی نفری تعینات کردی تھی۔تاہم تینوں سرکاری اداروں میں معمول کا کام کاج جاری تھا۔ اس دوران انتظامیہ نے جمعرات کو شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ کے آلوسہ میں کرفیو نافذ کردیا۔ سرکاری ذرائع نے یو این آئی کو بتایا کہ احتیاطی اقدامات کے طور پر آلوسہ بانڈی پورہ میں کرفیو کا نفاذ عمل میں لایا گیا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ وادی کے تمام علاقوں میں دفعہ 144 سی آر پی سی کے تحت پابندیاں جاری رکھی گئی ہیں۔ انتظامیہ نے بدھ کو 53 روز بعد وادی کے سبھی علاقوں سے کرفیو ہٹانے کا اعلان کیا۔ شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ کے نادی ہل رفیع آباد میں بدھ کو ایک 18 سالہ نوجوان دانش منظور اُس وقت ہلاک ہوگیا جب سیکورٹی فورسز نے احتجاجی مظاہرین پر اپنی بندوقوں کے دھانے کھول دیے ۔ فائرنگ کے اس واقعہ میں قریب ڈیڑھ درجن دیگر زخمی ہوگئے تھے ۔
بدھ کو وادی کے درجنوں مقامات پر ہونے والے پرتشدد احتجاجی مظاہروں میں قریب 200 افراد بشمول سیکورٹی فورس اہلکار زخمی ہوگئے تھے ۔ ریاستی پولیس کی طرف سے احتجاجی مظاہروں کے سلسلے پر بریک لگانے کے لئے شروع کردہ نوجوانوں کی پکڑ دھکڑ کے باوجود وادی کے اطراف واکناف میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شدت کے ساتھ جاری ہے ۔علیحدگی پسند قیادت نے بدھ کو اپنے تازہ احتجاجی کلینڈر میں وادی میں جاری ہڑتال میں 8 ستمبر تک توسیع کا اعلان کیا ہے ۔ انہوں نے اعلان کر رکھا ہے کہ حق خودارادیت کے حصول تک جدوجہد جاری رہے گی۔تاہم کسی بھی احتجاجی مظاہرے یا احتجاجی ریلی کی قیادت کرنے سے روکنے کے لئے مسٹر گیلانی کو اپنی رہائش گاہ پر، میرواعظ کو چشمہ شاہی ہٹ نما جیل اور یاسین ملک کو جے آئی سی ہم ہامہ میں نظربند رکھا گیا ہے ۔ دریں اثنا وادی میں معمول کی زندگی 9 جولائی سے بدستور معطل ہے ۔ جمعرات کو مسلسل 55 ویں روز بھی وادی میں دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے ، جبکہ سڑکوں پر گاڑیوں کی آواجاہی معطل رہی۔
تاہم وادی کے بیشتر علاقوں میں اشیائے ضروریہ فروخت کرنے والی دکانیں صبح کے آٹھ بجے تک کھلی رہتی ہیں جس دوران لوگ گھروں سے باہر آکر اشیائے خوردونوش حاصل کرلیتے ہیں۔ وادی کے تقریباً تمام تعلیمی ادارے یکم جولائی سے بند پڑے ہیں جبکہ سرکاری دفاتر، بینکوں اور نجی دفاتر میں معمول کا کام کاج بری طرح سے متاثر ہوکر رہ گیا ہے ۔ وادی میں 8 جولائی کو حزب المجاہدین کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد بھڑک اٹھنے والی احتجاجی لہر کے دوران تاحال 71 عام شہری ہلاک جبکہ 8 ہزار دیگر زخمی ہوگئے ہیں۔ اس کے علاوہ ریاستی پولیس کے دو اہلکار اور قریب 4500 سیکورٹی فورس و پولیس اہلکار زخمی ہوگئے ہیں۔ بذرگ علیحدگی پسند رہنما مسٹر گیلانی کی قیادت والی حریت کانفرنس نے خود انکشاف کیا ہے کہ تاجر برادری کو روزانہ 140کروڑروپیے کا مالی نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے ۔ حریت نے الزام عائد کیا ہے کہ ہندوستان اپنے زرخرید ایجنٹوں اور تنخواہ داروں کے ذریعے ہر سطح پر کشمیریوں کی رواں تحریک کو کمزور کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہا ہے جس کے تحت وہ سوموڈرائیوروں، آٹو ڈرائیوروں کو خالی گاڑیاں چلانے کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ان کے کچھ رشتہ دار جو بڑے بڑے ڈپارٹمینٹل اسٹوروں کے مالک ہیں، ان کو سول لباس میں ملبوس پولیس کی چھتر چھایا میں کام کرنے کے لیے کہا جاتا ہے ۔