اگر آپ سائنس فکشن کے دلدادہ ہیں تو یقینا امریکی ادیب ‘آئزک ایزیموو’ اور ان کی 3 کتابوں پر مشتمل ٹرائی لوجی’ فاؤنڈیشن’ سے ضرور واقف ہوں گے، 1942 سے 1950 تک ایسٹاؤنڈنگ میگزین میں شائع ہونے والی اس سائنس فکشن سیریز کی کہانی ایک ریاضی دان ہیری سیلڈن کے گرد گھومتی ہے، سیریز میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح اس نے حساب اور طبیعات کے اصولوں کو استعمال کرتے ہوئے مستقبل کے واقعات اور تاریخ کے بارے میں پیش گوئی کرنے کا طریقہ دریافت کیا، جسے ‘میتھ میٹیکل سوشیولوجی ‘ کا نام دیا گیا۔
ریاضی کی اس شاخ سائیکو ہسٹری سے ہیری سیلڈن نے ملکی وے اور ڈارک ایج کے متعلق بھی درست پیش گوئیاں کیں، جنھوں نے ایک دہائی تک پڑھنے والوں کو تجسس اور سحر میں جکڑے رکھا۔
فاونڈیشن سیریز کی اشاعت کے تقریبا 76 سال بعد اب فروری 2018 میں سائنس فکشن کو حقیقت میں بدلتے ہوئے اسپیس ایکس اورالیکٹرک کار کمپنی ٹیسلا کے بانی ایلون مسک نے ہیری سیلڈن کی طرح مستقبل کے بارے میں حساب و کتاب اور تخمینے لگا کر روڈسٹر نامی ذاتی الیکٹرک کار کو مستقبل کے سفر پر روانہ کیا، 6 فروری 2018 کو اس کار کو 2 فیلکن ہیوی راکٹس استعمال کرتے ہوئے خلا میں بھیجا گیا، یہ فیلکن ہیوی راکٹ 3 فیکلن راکٹس پر مشتمل ہے اور اپنے طاقتور ترین انجن کی وجہ سے یہ اپنے تمام ہم سروں پر ہاوی ہے۔
واضح رہے کہ فیلکن 9 راکٹس عموما خلائی اسٹیشن پر سامان پہنچانے اور خلا میں مصنوعی سٹیلائٹ بھیجنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
6 فروری کا دن اس لحاظ سے یادگار تھا کہ اس روز کینیڈی اسپیس اسٹیشن سے یہ روڈسٹر نامی گاڑی خلا میں بھیجی گئی، یہ وہی مقام ہے جہاں سے 50 برس قبل چاند پر انسانی مشن کے لیے اپولو الیون بھیجا گیا تھا، اس روز جب فلوریڈا میں واقع کینیڈی اسپیس فلائٹ سینٹر پر 2 تھری ڈی بوسٹرز فائر کیے گئے تو دنیا بھر سے اربوں شائقین ٹی وی اسکرینز، کمپیوٹر، لیپ ٹاپس ، ٹیبلٹ پر براہ راست جب کہ سیکڑوں افراد کا مجمع اس تاریخی واقع کو دیکھنے کے لیے وہاں موجود تھا۔
روڈسٹر کار میں ایک روبوٹ ڈرائیور بھی موجود ہے، جو باقاعدہ خلائی لباس میں ملبوس ہے، اسے ‘اسٹار مین ‘ کا نام دیا گیا ہے، اس کی لانچنگ کا طریقۂ کار کچھ ایسا ر کھا گیا تھا کہ اسٹیج ون کو جس میں 2 بوسٹرز تھے، اسٹیج 2 کے ساتھ لگایا گیا، دونوں بوسٹرز اور اسٹیج ون میں کل 27 انجن استعمال کیے گئے۔ جو 200 کلومیٹر کی بلندی پر جا کر علیحدہ ہوگئے تھے، ان پر لگے تھرسٹرز نے روڈ سٹر کو اس کے متعلقہ مدار تک پہنچایا، مگر دونوں بوسٹرز زمین کی کشش ثقل کے باعث واپس لینڈ کر گئے جو دیکھنے والوں کے لیے سائنس فکشن فلموں کا سا منظر تھا، جیسے کوئی سین ریوائنڈ کیا جارہا ہو۔
دراصل کشش ثقل کے باعث جب یہ بوسٹرز نیچے آئے تو ان کی رفتار کم ہوتی چلی گئی اور بھڑک اٹھنے کے بعد ان کے 20 اسٹینڈ کھل گئے، جس کے بعد یہ با آسانی زمین پر لینڈ کر گئے، اسی طرح اسٹیج ون کی بھی زمین پر لینڈنگ ہونا تھی، مگر تیسرے انجن میں غیر متوقع خرابی کے باعث یہ ممکن نہیں ہو سکا۔
ناسا کی ایریزونا میں واقع لیبارٹری سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق یہ کار فی الوقت سورج سے 3۔91 سے 5۔161 ملین میل کے فاصلے پر ہے، اگرچہ لانچنگ سے پہلے ایلون مسک نے دعوی ٰ کیا تھا کہ جلد ہی یہ کار مریخ کے مدار میں داخل ہوکر اس کے گرد چکر کاٹتی رہے گی اور اس امر کے امکانات بہت کم ہیں کہ یہ مریخ کے ماحول یا سطح سے ٹکرا کر تباہ ہو جائے، مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہیری سیلڈن کے برعکس ایلون مسک اپنے اعداد و شمار اور حساب و کتاب میں ناکام ثابت ہوئے ہیں اور ان کی توقعات کے برعکس پہلے ہی مرحلے میں فیکلن ہیوی کے تیسرے انجن کے اڑ جانے کے باعث اس کے طے شدہ مدار میں تبدیلی ہو گئی اور اب یہ اپنی ٹری جیکٹری سے کافی باہر نکل چکی ہے۔
واضح رہے کہ اسپیس ایکس اس سے پہلے بھی حادثات کا ایک طویل ریکارڈ رکھتی ہے اور 2016 میں بھی لانچنگ کے وقت اس کے ایک راکٹ کو حادثہ پیش آیا، اس وجہ سے دنیا بھر سے شائقین یہ جاننے کے لیے بے چین ہیں کہ اس وقت یہ کار خلا میں کس مقام پر ہے یا اسے بھی کوئی حادثہ پیش آگیا؟
کار کو ڈیزائن کرنے والے ناسا کے انجینئرز کے مطابق اس کا مدار جسے ‘ٹیسلا آربٹ’ کا نام دیا گیا ہے، ہیلو سینٹرک یعنی سورج کے مرکز والا تھا اور سورج سے اس کا کم سے کم فاصلہ جسے پیری ہیلین کہا جاتا ہے 99۔0 ایسٹرا نامیکل یونٹ یا 92 ملین میل جبکہ زیادہ سے زیادہ فاصلہ یا ایپ ہیلین 7۔1 ایسٹرنامیکل یونٹ یا 158 ملین میل رکھا گیا تھا،لیکن اس کے باوجود وثوق سے یہ کہنا مشکل تھا کہ یہ کتنے عرصے تک خلا میں سفر کر سکتی ہے، کیوں کہ اس کا انحصار سولر وائنڈز کے دباؤ، تھرمل ریڈی ایشن اور گردشی اثر پر تھا۔
اب اس کار کی لانچنگ کے ایک ہفتے بعد ناسا کی جیٹ پروپلژن لیبارٹری کے جاری کردہ ڈیٹا کے مطابق اس وقت یہ کار مریخ کے مدار سے باہر نکل چکی ہے اور سورج کے گرد زمین، وینس، مرکری اور مریخ کے مدار کے ساتھ محو گردش ہے، اور اس راستے کو اندازا 2020 تک ٹریک کیا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب دنیا بھر سے شائقین کا تجسس دیکھتے ہوئے ایک امریکی انجینئر بین پیرسن کی نے اس کار کی ٹری جیکٹری معلوم کرنے کے لیے ایک ویب سائٹ “ویئر از روڈسٹر ڈاٹ کام ” کے نام سے بنائی ہے، پیرسن کے مطابق اس نے ناسا کی جیٹ پروپلژن لیبارٹری کی جانب سے جاری کردہ ڈیٹا کو استعمال کرتے ہوئے تخمینہ لگایا ہے کہ روڈ سٹر اس وقت زمین سے 8۔1 ملین میل کے فاصلے پر ہے۔
یعنی ایلون مسک نے اس کے مدار کے بارے میں جو دعوے کیے تھے وہ کافی حد تک غلط ثابت ہو چکے ہیں، مگر اس کے باوجود پیرسن، ایلون کے بہت بڑا مداح ہیں، کیوں کہ وہ ایک بہادر انسان ہیں، جو بار بار نقصان اٹھانے کے باوجود رسک لینے سے نہیں گھبراتے، 1950 کی دہائی میں اگر آئزک ایزیموو سائنس فکشن ناولز اور کہانیوں کے ذریعے جن اچھوتے تصورات کو سامنے لائے تھے، تو آج ایلون مسک اور ان جیسے ہمہ جحت افراد انھیں حقیقت کے روپ میں پیش کرنے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔
پیرسن کی ویب سائٹ سے سور ج کے گرد ٹیسلا آربٹ کو با آسانی دیکھا جاسکتا ہے، ناسا کے ماہرین کے مطابق روڈسٹر اب 2091 میں زمین کے مدار کے بہت قریب سے گزرے گی، اور یہ بہترین موقع ہوگا کہ اس تاریخی کار کو زمین پر اتار کر کسی میوزیم میں محفوظ کر دیا جائے، ورنہ اندازا 10 ملین سالوں میں یہ سورج، زمین یا وینس کے مداروں میں مسلسل گردش میں رہتے ہوئے یا ان کی سطح سے ٹکرا کر تباہ ہو جائیگی۔