تہران۔ ٹرمپ کے بیانات نفسیاتی طور پر جوہری معاہدے کے نفاذ پراثرانداز ہوئے ہیں۔ یہ بات ایران کی وزارت خارجہ کی چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ طے شدہ جوہری معاہدے کے حوالے سے جاری چوتھی رپورٹ میں کہا گیا ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ نے اپنی ویب سائٹ پر ایک رپورٹ شائع کی ہے اور اس میں انکشاف کیا ہے کہ ٹرمپ کے بیانات سے معاہدے کے مستقبل سے متعلق تشویش اور غیر یقینی کی صورت حال کا احساس اجاگر ہوا ہے کیونکہ بہت سی غیرملکی کمپنیاں نئی امریکی حکومت کی ایران کے بارے میں حکمت عملی کے اعلان کی منتظر تھیں۔
وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ جوہری معاہدہ کثیرالجہت ہے اور یہ دوطرفہ نہیں ہے۔اس نے مزید کہا ہے کہ اس کو نئی امریکی انتظامیہ کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کی جلدی نہیں ہے۔
امریکا کے منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری جمعے کو حلف برداری کے بعد اقتدار سنبھال رہے ہیں۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے منگل کے روز ایک نیوز کانفرنس میں واضح کیا ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ برسر اقتدار آنے کے بعد جوہری معاہدے پر ازسر نو مذاکرات کا مطالبہ کرتے ہیں تو ایران کی جانب سے عالمی طاقتوں سے دوبارہ ایسے مذاکرات کا کوئی امکان نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ ”جوہری معاہدہ طے ہوچکا ہے۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اس کی توثیق کرچکی ہے۔اب یہ ایک بین الاقوامی دستاویز ہے۔یہ ایک کثیرالجہت معاہدہ ہے اور اب اس پر دوبارہ مذاکرات کا کوئی جواز نہیں ہے”۔
ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران عالمی طاقتوں کے ایران کے ساتھ طے شدہ جوہری معاہدے کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں اور انھوں نے ایران کے جوہری تنازعے پر نئے مذاکرات کا بھی مطالبہ کیا تھالیکن منتخب ہونے کے بعد سے انھوں نے جوہری معاہدے کی تنسیخ کے حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔تاہم ان کے نامزد وزیرخارجہ ریکس ٹیلرسن جوہری معاہدے پر مکمل نظرثانی کا مطالبہ کرچکے ہیں۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ جوہری معاہدہ اور ایران کی جانب سے خطے میں امریکا کے مفادات کے لیے خطرات منتخب صدر اور ان کی انتظامیہ کی ترجیحی فہرست میں پہلے نمبر پر ہوں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی نئی انتظامیہ میں شامل ہونے والے مجوزہ عہدہ دار بھی واشنگٹن کی ایران کے بارے میں پالیسی میں تبدیلی کا اشارہ دے چکے ہیں اور وہ ایران کے ساتھ دوستی کے بجائے محاذ آرائی چاہتے ہیں۔