ریاض، مکہ: اسلام کے پانچویں رکن ’حج‘ کی ادائیگی کے لیے مختلف ممالک سے 13 لاکھ سے زائد عازمین سعودی عرب پہنچ گئے۔ سعودی گزٹ کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے محکمہ پاسپورٹ کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل سلیمان الیحیٰی کا کہنا تھا کہ 12 لاکھ 45 سے زائد عازمین فضائی سفر کرکے جدہ کے ’کنگ عبدالعزیز انٹرنیشنل ایئرپورٹ‘ اور مدینہ کے ’پِرنس محمد بن عبدالعزیز انٹرنیشنل ایئرپورٹ‘ پہنچے۔ ان کا کہنا تھا کہ پڑوسی ممالک سے 65 ہزار سے زائد عازمین زمینی راستوں کے ذریعے حج کے لیے سعودی عرب پہنچے۔ واضح رہے کہ حج کا رکن اعظم ’وقوف عرفہ‘ اتوار کو ادا کیا جائے گا۔ سلیمان الیحیٰی نے کہا کہ حج کے لیے سعودی عرب آنے والے 216 غیر ملکی عازمین نے حج ہدایات پر عمل نہیں کیا، جس کے باعث انہیں دوبارہ ان کے ملک بھیج دیا گیا۔
حج کیلئے سخت سیکیورٹی انتظامات
چھ روز تک جاری رہنے والے حج اجتماع کے لیے گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں سال سیکیورٹی کے زیادہ سخت انتظامات کیے گئے ہیں، جس کی بڑی وجہ گزشتہ سال پیش آنے والا منیٰ حادثہ ہے۔ مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام کی جانب جانے والے راستوں پر سیکیورٹی چیک پوسٹیں قائم کی گئی ہیں، جبکہ پولیس کی بھاری نفری کو تعینات کیا گیا ہے۔ گزشتہ سال منیٰ میں ’رمی‘ کے دوران بھگدڑ مچنے سے 2 ہزار سے زائد عازمین جاں بحق ہوگئے تھے، جن میں 400 سے زائد ایرانی عازمین بھی شامل تھے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں حج کے دوران پیش آنے والا یہ سب سے بدترین حادثہ تھا۔ یہ حادثہ منیٰ میں اس وقت پیش آیا تھا جب حاجی جمرات پر کنکر پھینکنے کے لیے شارع نمبر 204 اور 223 کے سنگم پر موجود تھے اور اس دوران ایک ہجوم پلٹ کر واپس آیا اور پھر بھگدڑ مچ گئی۔ منیٰ حادثے میں 400 سے زائد شہریوں کے جاں بحق ہونے کے باعث رواں سال ایران نے سعودی حکومت سے عازمین حج کی حفاظت کی گارنٹی مانگی تھی، تاہم سعودی عرب نے اس کا یہ مطالبہ مسترد کردیا، جس کے باعث رواں سال عازمین حج میں ایرانی شامل نہیں۔
رواں سال حجاج کو شناخت کے حوالے سے پلاسٹک پیپر سے بنے ہوئے بریسلٹ بھی جاری کیے گئے ہیں جو ایک بار کوڈ کے حامل ہوں گے، جنھیں اسمارٹ فون کی مدد سے پڑھا جاسکے گا، ان بریسلیٹس پر حجاج کرام کی شناخت، قومیت اور مکہ میں داخلے کی تاریخ درج ہوگی۔ عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق رواں سال عازمین کی سہولت کے لیے سعودی وزارت صحت کی جانب سے 26 ہزار افراد پر مشتمل طبی عملے کو تعینات کیا گیا ہے۔ سعودی وزارت صحت کے سینئر عہدیدار کا کہنا تھا کہ عملے میں میڈیکل، انتظامی اور ٹیکنیکل ٹیمیں شامل ہیں، جنہیں ان کے مقررہ مقامات پر تعینات کردیا گیا ہے۔