صرف الفاظ سے کام نہیں چلے گا ،عملی جامہ پہنانا بھی پڑے گا
حیدرآباد : حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ وصدر کل ہند مجلس اتحادالمسلمین اسدالدین اویسی نے گؤ رکھشک پر وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے دیئے گئے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ان سے یہ سوال کیا کہ انہیں یہ بیان دینے میں اتنی دیر کیوں لگی؟ انہوں نے کہا کہ صرف الفاظ سے کام نہیں چلے گا بلکہ وزیراعظم کو اپنے بیان کوعملی جامہ پہنانا پڑے گا۔
مسٹر اویسی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ وزیراعظم کے لئے ایک اچھا موقع ہے کہ وہ خود یہ سوچ لیں کیوں کہ 2014ء کے انتخابات سے پہلے گلابی انقلاب کی وزیراعظم نے بات کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے اپنی تقاریر میں گاو ذبیحہ کے بارے میں بات کی تھی لیکن جب اخلاق کو مارا گیا ‘ جھارکھنڈ میں دو مسلمانوں کو مارا گیا اور جموں میں ایک کشمیری لاری ڈرائیور کو جان سے مارا گیا تو وزیراعظم نے کچھ نہیں کہا۔
انہو ں نے کہا کہ گجرات کے اونا میں جو واقعہ ہوا اس واقعہ کے بعد ہندوستان کے گھر گھر میں اس کی ویڈیو پہنچ چکی ہے ۔ وہاں کے دلت سماج اور سیکولر ذہن رکھنے والے تمام افراد نے اس پر احتجاج کیا ہے جس پر گاورکھشک کے بارے میں وزیراعظم کو یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑا مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ایک سچائی ہے کہ جتنے گاو رکھشک کے نام پر سمیتیاں یا تنظیمیں ہیں ان تمام کا تعلق سنگھ پریوار سے ہے تو کیا ان کے بارے میں وزیراعظم صرف الفاظ ہی ادا کریں گے یا پھر عملی اقدامات بھی کئے جائیں گے کیوں کہ مہاراشٹرا ‘ جھارکھنڈ ‘ ہریانہ میں بی جے پی کی حکومتیں ہیں جہاں گاو ذبیحہ کے خلاف سخت قانون بنایا گیا ہے ۔ وزیراعظم اپنے اس بیان سے کیا پیام دیناچاہتے ہیں۔ 2014کے انتخابات کے بعد مہاراشٹرا ، جھارکھنڈ، ہریانہ میں گاو ذبیحہ کے خلاف سخت قانون بنایا گیا۔ اگر کسی کی ماں پر حملہ ہوتا ہے تو 7سال کی سزا نہیں ہے لیکن اگر گاو ذبیحہ کیا جاتا ہے تو 7سال کی سزا دی جاتی ہے ۔ ان باتوں پر وزیراعظم کو سوچنا پڑے گا اور اس پر کارروائی کرنی ہوگی۔
گجرات اور اترپردیش کے انتخابات کے پیش نظر وزیراعظم کے اس بیان سے متعلق ایک سوال پر صدرمجلس نے کہا کہ گجرات میں پٹے دار احتجاج کے بعد ایسا واقعہ پیش آیا اور پھر وزیراعلی کو تبدیل کردینا یہ تمام باتیں بی جے پی کو بے چین کررہی ہیں۔ سوال سیاسی بے چینی کا نہیں ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ اس ملک میں قانون کی حکمرانی رہے گا یا نہیں۔ اگر قانون کی حکمرانی رہے گی تو مرکز میں برسراقتدار حکمراں جماعت کو اس پر سوچنا ہوگا۔ یہ واقعات ان مقامات پر ہوئے جہاں پربی جے پی برسراقتدار ہے یا پھر تنظیمی طور پر بی جے پی مستحکم ہے ۔ ایسا کرنے والوں کی اکثریت اسی سوچ کی حامل ہے تو وزیراعظم کو اپنے لوگوں ‘ اپنی پارٹی اور حکومت پر لگام کسنے کی ضرورت ہے ۔ انہیں انتخابات سے پہلے کی تقاریر یاد کرنی ہوگی جو انہوں نے گلابی انقلاب کی بات کہی تھی۔ صرف الفاظ سے کام نہیں چلے گا بلکہ عملی جامہ پہنانا پڑے گا۔
انہوں نے کہاکہ ایسے واقعات سے دلتوں اور مسلمانوں میں جو عدم سلامتی کا احساس پیدا ہوگیا ہے اس کو دور کرنا پڑے گا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ امریکہ بھی ایسے تمام واقعات پر تبصرہ کرتا ہے ۔ اسے ہمارے معاملات میں مداخلت کا موقع مل رہا ہے ۔یہ بات رکھنی پڑے گی کہ ان واقعات کی بین الاقوامی میڈیا میں بہت زیادہ رپورٹنگ ہورہی ہے۔ ہندوستان میں بیرونی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے ۔ اس طرح کے واقعات سے ہم بین الاقوامی سرمایہ کار طبقہ کو اچھا پیام نہیں دے رہے ہیں۔