روس میں پارلیمانی انتخابات کے لیے ووٹنگ کا آغاز ہو گیا ہے جس میں زیادہ تر صدر ولادی میر پوتن کے حامی حاوی دکھائی دے رہے ہیں۔
یہ پہلی مرتبہ ہے کہ روس کرائمیا میں اپنی پارلیمان کے انتخابات کا انعقاد کر رہا ہے۔ سنہ 2014 میں کرائمیا کا روس ساتھ الحاق ہو گیا تھا جس کی عالمی سطح پر تنقید کی گئی تھی۔
سنہ 2011 میں ہونے والے انتخابات میں دھاندلی کے شواہد سامنے آنے کے بعد سے بڑے پیمانے پر مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔
ووٹر ایوان زیریں کے 450 ارکان کا آئندہ پانچ سالوں کے لیے انتخاب کریں گے، اس وقت دما یعنی ایوان زیریں میں پوتن مخالف ارکان کی تعداد انتہائی کم ہے۔
روس کی معیشت کے حوالے سے پائی جانے والی بے چینی اور یوکرین اور شام کو لے کر مغرب کے ساتھ کشیدگی کے باوجود بعض مبصرین نے انتخابی مہم کو حالیہ تاریخ میں غیر دلچسپ قرار دیا ہے۔
بڑے پیمانے پر ووٹروں میں عدم دلچسپی کے باعث ٹرن آؤٹ کم ہونے کی توقع ظاہر کی جا رہی ہے۔
یوکرین میں تناؤ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جہاں حکومت روس کی جانب سے کرائمیا میں انتخابات کروانے کے منصوبے پر شدید برہم ہے۔
یوکرین کی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریانہ بیٹسا کا کہنا ہے کہ روسی انتخابات ان کے ملک میں نہیں ہو سکتے، یہاں تک کے روسی ڈوپلومیٹک اور قونصلیٹ کی عمارتوں میں بھی نہیں۔
دوسری جانب ان کی ہم منصب ماریہ زاخروو کا اس بات پر اسرار ہے کہ ’یوکرین میں روسی سفارتخانے اور قونصلیٹ جنرل میں بھی پولنگ سٹیشن قائم کیے جائیں گے۔‘
جبکہ صدر ولادی میر پوتن کے ترجمان دمیتری پیسکوو نے کہا ہے کہ ’روس نے اپنے سر زمین پر ہونے والے انتخابی عمل کے بارے میں کسی دوسری ملک کے ساتھ بحث کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا ہے۔‘