اگرچہ ابتداء میں انہیں اپنی تحقیقات خصوصاً نظریۂ اضافیت پر کافی تنقید و مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، اور ان کا موازنہ براہ راست نیوٹن کے قوانین سے کیا گیا جو نسبتاً عام فہم تھے، مگر کچھ تضادات کا شکار تھے، جبکہ آئن اسٹائن کے خیالات پیچیدہ اور گنجلک تھے۔ جو بعد میں طبیعات کی ایک نئی شاخ ‘کوانٹم فزکس’ کی بنیاد رکھنے کا سبب بنے، درحقیقت ڈارون کے بعد آئن اسٹائن وہ سائنسدان تھے، جنہیں ہر دور میں شدید لعن طعن کا سامنا رہا مگر دراصل ان کے یہی نظریات انہیں دنیا کا ایک ذہین ترین انسان اور ایک کامیاب ماہر طبیعات بنانے کا سبب بنے۔
بے پناہ تنقید کے باوجود صرف 2 برس کے قلیل عرصے میں وہ بنیادی نظریۂ اضافیت پیش کرنے میں کامیاب ہوگئے اور یہیں سے ان کی کامیابیوں کے سفر کا آغاز ہوا، جس کے بعد اس نامور سائنسدان نے پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، جلد ہی انہیں کیرولیم انسٹی ٹیوٹ میں ڈائریکٹر کی ملازمت حاصل ہوگئی، 1919ء میں سورج گرہن کے دوران مشاہدات کرتے ہوئے سر آرتھر یڈنگٹن نے نظریۂ اضافیت کی تصدیق کی، جبکہ 2016ء میں جدید ترین ٹیکنالوجی ’لیگو‘ کے ذریعے آئن اسٹائن کی گریوی ٹیشنل ویوز (ثقلی موجوں) کی 100 سال بعد باقاعدہ تصدیق کی جاچکی ہے، جو اس امر کا ثبوت بھی ہے کہ البرٹ آئن اسٹائن کا وجدان اور اشیاء کی گہرائیوں میں اتر جانے کی صلاحیت کتنی غیر معمولی تھی۔
1921ء میں آئن اسٹائن کو تھیوریٹیکل فزکس میں قابل ذکر تحقیق پر نوبل پرائز دیا گیا تو انہوں نے اپنے انعام کی رقم اپنی بیوی میلیوا کے نام کرکے طلاق حاصل کرلی، زندگی کے مختلف ادوار میں بہت سی عورتیں ان کی ساتھی رہیں، مگر جو دیرپا اور گہرا اثر میلیوا نے ان کی شخصیت پر ڈالا تھا اس کی بدولت وہ مرتے وقت تک اس کے معترف بھی رہے اور مشکور بھی، وہ ساری زندگی قدرت کے شاہکاروں کے پوشیدہ قفل کھولنے کی سعی کرتے رہے، چاہے وہ مقناطیسی فیلڈ ہو یا اجرام فلکی کی مضبوط کشش ثقل، اشیاء کا جمود ہو یا گردشی اثر، روشنی کی شعائیں ہوں یا ثقلی موجیں، ہر شے انہیں اپنے سحر میں جکڑتی گئیں اور وہ ایک جنون میں ان ناممکنات پر غور کرتا گیا جو عام آدمی کے ذہنی سطح سے ماورا تھیں۔