مقناطیسی فیلڈ سے تحریک پانے والا 19 ویں صدی کا یہ نامور سائنس دان اور ماہر طبیعات ساری زندگی روزمرہ استعمال کی اشیاء سے لے کر اجرام فلکی تک ہر کسی کے گرد مخفی فیلڈز پر اس استدلال کے ساتھ تحقیق کرتا رہا کہ ’اشیاء کی تفصیلات اور گہرائیوں میں بہت سی حقیقتیں پنہاں ہوتی ہیں، جنہیں کھوج کر دریافت کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔‘
14 مارچ 1879 کو جنوبی جرمنی کے شہر الم میں واقع گاؤں ‘سوابین میں پیدا ہونے والے البرٹ آئن اسٹائن کے متعلق کوئی گمان بھی نہیں کرسکتا تھا کہ یہ بچہ مستقبل میں سائنس خصوصاً طبیعات جیسے مشکل مضمون میں انقلاب لانے کا باعث بنے گا۔
اُن کی نشونما بچپن ہی سے کافی سست روی کا شکار تھی، 2 سال کی عمر میں انہوں نے بمشکل ٹوٹے پھوٹے الفاظ بولنا شروع کیا، اسکول میں بھی اُن کا شمار ایسے سست روی کا شکار بچوں میں کیا جاتا تھا، جو سیکھنے اور پڑھنے میں بہت وقت لگاتے ہیں، اُن کے لیے والدین ہی نہیں پورا خاندان متفق تھا کہ یہ بچہ بمشکل ہی کوئی ڈگری حاصل کرسکے گا، اگرچہ اس حوالے سے کافی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں جن کی ایک بڑی وجہ بچپن کے متعلق آئن اسٹائن کے اپنے کچھ متنازع بیانات بھی ہیں، مگر ان کی وفات کے بعد منظر عام پر آنے والے ان کے دادا کے خطوط سے پتہ لگتا ہے کہ وہ عام بچوں کی طرح چالاک اور ہوشیار تھے، مگر ابتداء میں انہیں بولنے میں دشواری کا سامنا ضرور رہا تھا۔
یہ عادت ساری عمر ان کے ساتھ رہی، جس کے باعث وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے اور اپنی بات کو 2 سے 3 مرتبہ دہرایا کرتے تھے، اس بارے میں خود آئن اسٹائن کا کہنا تھا کہ اگر کوئی سوچ یا خیال اچانک ذہن میں وارد ہوکر انہیں بہت زیادہ متاثر کرتا تو وہ اسے بار بار دہراتے ہیں۔