گذشتہ کچھ عرصے سے پشاور اور آس پاس کے اضلاع میں سکیورٹی فورسز، پولیس اور سرکاری دفاتر پر حملوں میں پھر سے تیزی دیکھی جارہی ہے
پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں حکام کا کہنا ہے کہ مسلح افراد کے ایک حملے میں سادہ کپڑوں میں ملبوس سکیورٹی فورسز کے تین اہلکار ہلاک ہوگئے ہیں۔
پولیس کے مطابق یہ حملہ اتوار کی صبح پشاور کے مضافاتی علاقے خزانہ میں گڑھی صعبت خان کے مقام پر ہوا۔
پشاور کے ایس پی رورل شوکت خان نے بی بی سی کو بتایا کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس پاک فوج کے تین اہلکار سفید رنگ کی سوزوکی گاڑی میں جارہے تھے کہ اس دوران موٹر سائیکل پر سوار مسلح افراد نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کردی جس سے تینوں اہلکار موقع ہی پر ہلاک ہوئے۔
انھوں نے کہا کہ ہلاک ہونے والے اہلکار قریب واقع ملٹری فارم سے دودھ لینے جارہے تھے کہ اس دوران ان پر حملہ کیا گیا۔
پولیس افسر کے مطابق واقعے کی اطلاع ملتے ہی فوج اور پولیس کی بھاری نفری جائے وقوعہ پہنچ گئی اور سارے علاقے کو گھیرے میں لے کر بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن کا آغاز کردیا۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ مسلح افراد دو موٹر سائیکلوں پر سوار تھے اور فائرنگ کے بعد فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ انھوں نے کہا کہ جائے وقوعہ سے نائن ایم ایم اور تیس بور کے پستول کے کئی خول بھی ملے ہیں۔
تاہم ابھی تک فوج کی جانب سے اس ضمن میں کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ گذشتہ کچھ عرصے سے پشاور اور آس پاس کے اضلاع میں سکیورٹی فورسز، پولیس اور سرکاری دفاتر پر حملوں میں پھر سے تیزی دیکھی جارہی ہے۔ اس سے پہلے پشاور کے قریب واقع ورسک کے کرسچین کالونی میں دہشت گردوں کی طرف سے حملے کی کوشش کو ناکام بنادیا گیا تھا جبکہ اسی روز مردان میں کچہری کی حدود میں ہونے والے خودکش حملے میں کم سے کم بارہ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
جمعے کو وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے مہمند ایجنسی کے انبار تحصیل میں مسجد پر ہونے والے ایک خودکش حملے میں کم سے کم 34 افراد ہلاک اور تیس کے قریب زخمی ہوگئے تھے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آرمی پبلک سکول پشاور پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد ملک کی فوجی اور سیاسی قیادت نے مل کر نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا تھا جس کے بعد ملک میں شدت پسندوں کے خلاف وسیع پیمانے پر کاروائیوں کا آغاز کیا گیا تھا۔ ان آپریشنز کے نتیجے میں ملک بھر میں عمومی طورپر سکیورٹی کی صورتحال میں بہتری دیکھی گئی تھی تاہم اب پھر سے دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جس سے عوام میں بھی خوف و ہراس بڑھتا جارہا ہے۔