دانشوروں نے سیاسی نظام کو ٹھہرایا قصوروار
لکھنؤ : 2011 کےمردم شماری کا تجزیہ کرنے پرایک حیران کن انکشاف ہوا ہے۔ مردم شماری کے مطابق ملک میں مسلموں کی کل آبادی 14.23 فیصد ہے مگرملک میں موجود بھکاریوں میں ہرچوتھا شخص مسلمان ہے ۔ یعنی 25 فیصد بھکاری مسلمان ہیں۔ مسلم دانشوروں نے اس تناسب کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے اس کے لئےسیاسی نظام کو قصوروار قرار دیا ہے۔
کسی بھی ملک کے سماجی حالات کو سمجھنے کیلئے مردم شماری ایک اہم ذریعہ ہے ۔ ہندوستان میں 2011 میں ہوئی مردم شماری کے مطابق ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہے ، جن کے پاس روزگار نہیں۔ 2011 کے مردم شماری کے مطابق 72.89 کروڑ لوگوں کو نان ورکر کے زمرہ میں رکھا گیا ہے۔ جن میں 3.7 لاکھ افراد بھیک مانگ کر زندگی گذر بسر کر رہے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان میں ایک چوتھائی مسلمان ہیں یعنی مسلم بھکاریوں کی تعداد تقریباً92 ہزار760 ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مسلم مرد بھکاریوں کے مقابلہ میں مسلم خواتین بھکاریوں کی تعداد تقریباً 13 فیصد زیادہ ہے۔
اترپردیش اقلیتی کمیشن کے رکن سہیل ایوب زنجانی کا کہنا ہے کہ حکومتوں کی متعصبانہ پالیسیاں مسلمانوں کی اس پسماندگی کی اصل وجہ ہیں۔ مسلم مسائل پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کیلئے سرکاری اسکیموں کے تئیں عوام میں بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ صدقہ و زکوٰۃ جیسے اسلامی احکام پرعمل کیا جائے ، تومسلمانوں کو غربت سے نجات مل سکتی ہے۔
ادھر اترپردیش اقلیتی بہبود کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ یوپی حکومت کی جانب سے اقلیتوں کی تعلیم و روزگار کے لئے بہت سی اسکیمیں چلائی جا رہی ہیں ، جن سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ 2001 کی مردم شماری کے موازنہ میں 2011 میں بھکاریوں کی تعداد میں 41 فیصد تک کمی آئی ہے ، مگران میں مسلمانوں کا تناسب قابل تشویش ہے۔
جانئے ، کس کی آبادی کنتی اور بھکاریوں کی تعداد کتنی ؟
عیسائیوں کی آبادی 2.3 فیصد ہے لیکن بھکاریوں میں انکی تعداد 0.88 فیصد
سکھ کی آبادی1.7 فیصد ہے لیکن بھیک مانگنے والوں کی تعداد 0.45 فیصد
بودھ کی آبادی 0.70فیصد ہے لیکن 0.52 فیصد لوگ ہی بھیک مانگتے ہیں
جین فرقے کی آبادی0.37 فیصد ہے اور بھیک مانگنے والوں کی تعداد 0.06 فیصد ہے۔