سری نگر: وادی کشمیر کے کچھ بڑے قصبوں میں جمعرات کو لوگوں کے ایک جگہ جمع ہونے پر پابندیاں ایک مرتبہ پھر نافذ کردی گئیں۔ وادی کے اطراف واکناف میں معمولات زندگی آج مسلسل 90 ویں روز بھی مفلوج رہیں۔ پولیس کے مطابق وادی کے کسی بھی علاقہ میں جمعرات کو کرفیو نافذ نہیں رہا۔ کشمیر علیحدگی پسند قیادت سید علی گیلانی، میرواعظ مولوی عمر فاروق اور محمد یاسین ملک جنہوں نے بدھ کو اپنے تازہ احتجاجی کلینڈر میں وادی میں جاری ہڑتال میں 13 اکتوبر تک توسیع کا اعلان کیا، نے آج شمالی کشمیر میں بارہمولہ، وسطی کشمیر میں سری نگر اور جنوبی کشمیر میں اننت ناگ تک آزادی مارچ کی کال دی تھی۔ تاہم اس کال کو ناکام بنانے کے لئے کشمیر انتظامیہ نے آج وادی کے کچھ بڑے قصبوں میں دفعہ 144 سی آر پی سی کے تحت چار یا اس سے زیادہ افراد کے ایک جگہ جمع ہونے پر پابندیاں نافذ کردیں۔ پولیس نے بتایا کہ پابندیاں کا نفاذ وسطی کشمیر کے گاندربل اور بڈگام قصبوں میں عمل میں لایا گیا ہے ۔ اسی طرح جنوبی کشمیر کے شوپیان، کولگام اور پلوامہ اور شمالی کشمیر کے بانڈی پورہ اور سوپور قصبہ جات میں بھی دفعہ 144 سی آر پی سی کے تحت پابندیاں نافذ کی گئی ہیں۔ اگرچہ وادی کے دوسرے حصوں کو پابندوں سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے ، لیکن ایسے علاقوں میں امن وامان کی صورتحال کو بنائے رکھنے کے لئے سیکورٹی فورسز اور ریاستی پولیس کے اہلکاروں کی اضافی نفری بدستور تعینات رکھی گئی ہے ۔ دریں اثنا ادھر گرمائی دارالحکومت سری نگر کے سیول لائنز میں ایک درجن سے زائد افراد نے وادی میں گذشتہ 90 روز سے جاری ہڑتال ختم کرنے کے مطالبہ کے حق میں احتجاج کیا۔ یو این آئی کے ایک نامہ نگار نے بتایا کہ ایک درجن سے زائد افراد جنہوں نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے ، جمعرات کو یہاں مشتاق پریس انکلیو میں نمودار ہوکر جاری ہڑتال کو ختم کرنے کا مطالبہ کرنے لگے ۔ ایک پلے کارڈ پر یہ تحریر درج تھی ‘ہمارے چولے جلنا بند ہوگئے ‘۔ انہوں نے وہاں موجود نامہ نگاروں کو بتایا ‘تین ماہ سے جاری ہڑتال کے باعث ہمارے کنبے فاقہ کشی کا شکار ہوگئے ہیں’۔
وادی میں 8 جولائی کو حزب المجاہدین کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے ساتھ شروع ہوئی آزادی حامی احتجاجی لہر جو جمعرات کو 90 ویں دن میں داخل ہوگئی، کے دوران یہ پہلا موقعہ ہے کہ جب ہڑتال کے خلاف کسی شخص نے اپنی آواز بلند کی۔ تاہم پریس کالونی میں موجود کچھ راہگیروں نے بتایاکہ ہڑتال کے خلاف احتجاج کرنے والے یہ درجن بھر لوگ کسی حکمران مین اسٹریم کے حمایت یافتہ یا کارکن ہو سکتے ہیں۔ سری نگر اور اس کے مضافاتی علاقوں میں جو دکانیں اور تجارتی مراکز بدھ کی شام کو علیحدگی پسند قیادت کی طرف سے ہڑتال میں دی گئی ڈھیل کے دوران کھل گئے تھے ، آج صبح چھ بجے کے بعد دوبارہ بند نظر آیے ۔ اگرچہ کچھ بینک شاخیں صبح کے وقت کچھ گھنٹوں تک کھلی رہتی ہیں، لیکن بیشتر سرکاری اور نجی دفاتر میں معمول کا کام کاج بدستور متاثر پڑا ہے ۔ سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ کی آواجاہی بدستور معطل پڑی ہے ۔ اسٹیٹ روڑ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی بسیں کا سڑکوں پر چلنا بھی 9 جولائی سے معطل ہے ۔ تعلیمی اداروں میں تعلیمی سرگرمیاں یکم جولائی سے ٹھپ پڑی ہیں۔ سری نگر میں کم از کم آدھ درجن تعلیمی اداروں میں ابھی بھی سیکورٹی فورسز اپنا ڈیرا جمائی ہوئی ہے ۔ پائین شہر میں تاریخی جامع مسجد کے علاقہ کی صورتحال میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے ۔ اس تاریخی مسجد کے باب الداخلے 9 جولائی سے بند رکھے گئے ہیں۔ پائین شہر میں کئی ایک سڑکوں کو خاردار تار سے بدستور بند رکھا گیا ہے اور ان پر تعینات سیکورٹی فورسز اہلکار لوگوں کو متبادل راستے اختیار کرنے کے لئے کہہ رہے تھے ۔
عام دنوں میں انتہائی مصروف رہنے والے نالہ مار روڑ کے ایک حصے کو کئی ایک بار مقامات پر بند رکھا گیا ہے ۔ اگرچہ شمالی کشمیر کے قصبہ بارہمولہ میں محض لوگوں کے ایک جگہ جمع ہونے پر پابندی نافذ کی گئی ہیں، لیکن مقامی لوگوں نے الزام عائد کیا کہ پرانے قصبے کو سیول لائنز کے ساتھ جوڑنے والے پلوں کو خاردار تار سے بند کردیا گیا ہے ۔ بارہمولہ کی طرح شمالی کشمیر کے دوسرے بڑے قصبوں بشمول کپواڑہ، ہندواڑہ، اوڑی، لنگیٹ، پل ہالن اور پٹن میں بھی ہڑتال کے باعث معمولات زندگی آج 90 ویں روز بھی مفلوج رہے ۔ جنوبی کشمیر سے موصولہ ایک رپورٹ کے مطابق سبھی بڑے قصبوں بشمول شوپیان، کولگام، اننت ناگ، پلوامہ اور پانپور میں دکانیں اور تجارتی مراکز بند ہیں جبکہ سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ کی آمدورفت معطل ہیں۔ ایسی ہی اطلاعات وسطی کشمیر کے قصبوں بشمول بڈگام، بیروہ، چاڈورہ، خانصاحب، ماگام، گاندربل اور کنگن سے بھی موصول ہوئیں۔ دریں اثنا وادی میں تمام مواصلاتی کمپنیوں کی موبائیل انٹرنیٹ خدمات 8 اور 9 جولائی کی درمیانی رات سے معطل ہیں