بغداد ۔ الحشد الشعبی کوعراق کی پارلیمان نے مکمل ریزرو فورس کا درجہ دے دیا ہے۔ شیعہ ملیشیاؤں پر مشتمل الحشد الشعبی کو ایک مکمل ریزرو فورس کا درجہ دینے کے لئے پارلیمان میں پیش بل کو اکثریثت سے منظوری دے دی گئی۔ اسکے ساتھ ہی انھیں ملک کو درپیش داعش ایسے سکیورٹی اور دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے اختیارات بھی دے دیے ہیں۔
عراقی پارلیمان میں 327 میں سے 208 ارکان نے الحشد الشعبی کو قانونی قرار دینے کے لیے بل کے حق میں ووٹ دیا ہے لیکن اس ملک کے سنی عرب سیاست دانوں اورارکان پارلیمان نے اس قانون سازی کو فوری طور پر مسترد کردیا ہے اور اس کو ملک کی شیعہ اکثریت کی ”آمریت” قرار دیا ہے۔
عراق کے تین میں سے ایک نائب صدر اور سینیر سنی سیاست دان اسامہ النجیفی نے پارلیمان میں رائے شماری کے فوری بعد بغداد میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا ہے کہ ”اکثریت کو ہر کسی چیز کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔الحشد الشعبی کی کسی حقیقی سیاسی طریقے سے شمولیت ہونی چاہیے اور اس قانون پر نظرثانی کی جانی چاہیے”۔
سنی رکن پارلیمان احمد المصری نے کہا ہے کہ ”اس قانون سازی سے عراق کی تمام برادریوں اور طبقات کی سیاسی عمل میں شمولیت سے متعلق شبہات کو تقویت ملی ہے۔ اس سے قوم کی تعمیر کا بھی خاتمہ ہوگیا ہے۔اس قانون سے ملک کی فوج اور پولیس کے متوازی ایک خطرناک فورس تشکیل دے دی گئی ہے”۔
شیعہ ملیشیاؤں کو قانونی اور جائز قرار دینے کے لیے بل پارلیمان میں سب سے بڑے شیعہ بلاک نے پیش کیا تھا۔اس کے تحت ملیشیاؤں کو ملک کے شیعہ وزیراعظم حیدر العبادی کی کمان میں دے دیا گیا ہے اور فوج اور پولیس کی طرح اس ملیشیا میں شامل جنگجوؤں کو تن خواہیں اور پنشن وغیرہ وصول کرنے کا حق حاصل ہوگیا ہے۔
حیدر العبادی نے ایک بیان میں اس قانون سازی کا خیرمقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ ”الحشد الشعبی فورسز میں تمام عراقی فرقوں کے لوگ شامل ہوں گے۔یہ تمام عراقیوں کی نمائندہ ہوگی اور ان کا دفاع کرے گی”۔ان کا اشارہ اس ملیشیا میں بہت تھوڑی تعداد میں شامل سنی قبائلی فورسز کی جانب تھا۔اس وقت اس ملیشیا میں شامل شیعوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔
عراقی پارلیمان میں الحشد الشعبی کو قانونی قرار دینے کے لیے ایسے وقت میں رائے شماری ہوئی ہے جب سرکاری فورسز شمالی شہر موصل سے داعش کے جنگجوؤں کو نکال باہر کرنے کے لیے ایک بڑی کارروائی کررہی ہیں۔ اس میں عراقی سکیورٹی فورسز کے پچیس ہزار سے زیادہ اہلکار حصہ لے رہے ہیں اور الحشد الشعبی کے جنگجوؤں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔
الحشد الشعبی میں شامل بیشتر شیعہ ملیشیاؤں کی ایران پشتی بانی کررہا ہے اور اس کے اعلیٰ فوجی افسروں نے ہی انھیں تربیت دے کر منظم کیا ہے۔عراقی حکومت نے 2014ء کے اوائل میں داعش کے ملک کے شمالی اور شمال مغربی علاقوں میں احیاء کے بعد ان شیعہ ملیشیاؤں کو ہتھیار مہیا کرنے شروع کردیے تھے۔ان میں سے بعض جنگجو گروپ داعش کے منظرعام پر آنے سے قبل بھی موجود تھے اور وہ امریکی فوج سے اس کی سنہ 2003ء سے 2011 تک عراق میں موجودگی کے دوران لڑتے رہے تھے۔
انھوں نے دو سال قبل داعش کی بغداد اور سامراء کی جانب پیش قدمی کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور انھیں ان کے زیر قبضہ بغداد کے جنوبی ،شمال مغربی اور شمالی علاقوں سے نکال باہر کرنے میں عراقی فورسز کی مدد کی تھی۔اُس وقت عراقی فورسز کی حالت انتہائی دگرگوں تھی اور عراقی فوجی شمالی شہر موصل پر داعش کی یلغار کے وقت اپنی وردیاں اور اسلحہ بھی چھوڑ کر بھاگ گئے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جونہی عراقی فورسز کو تقویت ملنا شروع ہوگئی اور ان کے قدم مضبوط ہوگئے تو ان شیعہ ملیشیاؤں کے کردار کو گھٹا دیا گیا تھا۔
اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی رہی ہے کہ ان شیعہ جنگجوؤں پر سنی عربوں اور انسانی حقوق کے گروپوں نے داعش کے قبضے سے چھڑائے گئے علاقوں میں ماورائے عدالت قتل ،لوگوں سے اذیت ناک سلوک ،چوریوں اور شہری املاک کی تباہ کاریوں میں ملوّث ہونے کے سنگین الزامات عاید کیے تھے۔تاہم اس کے کمانڈروں نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔
اس وقت الحشد الشعبی کے جنگجو موصل سے مغرب میں واقع تل عفر میں داعش کے خلاف جنگ آزما ہیں اور انھیں اس شہر سے داعش کو نکال باہر کرنے کی ذمے داری سونپی گئی ہے۔انھوں نے اسی ہفتے اس کے ہوائی اڈے پر قبضہ کر لیا تھا اور وزیراعظم حیدرالعبادی نے گذشتہ جمعرات کو وہاں ملیشیا کمانڈروں سے ملاقات کی تھی۔
درایں اثناء موصل سے عراقی فوج اور اسپتال کے ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ داعش کے جنگجوؤں نے شہر کے اپنے قبضے سے چھن جانے والے علاقوں پر گولہ باری کی ہے جس کے نتیجے میں سولہ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے ہیں۔
امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی اطلاع کے مطابق موصل کے مشرقی حصے سے مزید ہزاروں افراد اپنا گھر بار چھوڑ کر پناہ گزین کیمپوں کی جانب چلے گئے ہیں۔اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے یو این ایچ سی آر کی رپورٹ کے مطابق موصل پر دوبارہ قبضے کے لیے عراقی فورسز کی 17 اکتوبر کو فوجی مہم کے آغاز کے بعد سے کم سے کم 73 ہزار عراقی بے گھر ہو چکے ہیں۔