نئی دہلی۔ ہریانہ کے روہتک ضلع میں جنسی زیادتی کا شکار بننے والی دس سالہ بچی کو طبی حکام نے اسقاطِ حمل کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ریاست ہریانہ کے شہر روہتک سے تعلق رکھنے والی اس بچی کو اس کے سوتیلے والد نے متعدد بار ریپ کیا تھا جس کے نتیجے میں وہ حاملہ ہوگئی تھی۔ ان کو حمل ٹھہرے 20 ہفتے سے زیادہ وقت گزر چکا ہے۔
قانون کے مطابق 20 ہفتے سے زیادہ کا حمل صرف اسی صورت میں ضائع کیا جا سکتا ہے جب ڈاکٹر یہ تصدیق کر دیں کہ حاملہ خاتون کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ خیال رہے کہ یہ سخت قانون انڈیا میں صنفی عدم تناسب کی وجہ سے متعارف کروایا گیا تھا۔ روہتک کے سرکاری ہسپتال کے سینیئر ڈاکٹر اشوک چوہان نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ڈاکٹروں کے پینل نے اسقاطِ حمل کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ عمل جلد ہی انجام دیا جائے گا۔
ڈاکٹر چوہان کا کہنا ہے کہ ’بچی 20 ہفتوں کی حاملہ ہے، تاہم یہ 19 یا 21 ہفتے بھی ہو سکتے ہیں، ٹیکنالوجی اتنی جدید نہیں کہ وہ درست طور پر یہ بتا سکے کہ حمل کا کونسا ہفتہ چل رہا ہے۔‘ منگل کو مقامی عدالت نے بھی پوسٹ گریجویٹ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹروں کے پینل کے فیصلے کی توثیق کر دی ہے۔ 10 سالہ بچی کے حاملہ بننے کی خبر گذشتہ ہفتے سامنے آئی جب ان کی والدہ کو جو ایک گھریلو ملازمہ ہیں، شک ہوا کہ ان کی بیٹی حاملہ ہے اور وہ اسے قریبی ہسپتال لے گئیں۔
حکام کے مطابق لڑکی کی والدہ کی جانب سے پولیس میں رپورٹ درج کروانے پر ان کے سوتیلے والد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران انڈیا کی سپریم کورٹ میں ایسی کئی درخواستیں دائر کی گئی ہیں جن میں ریپ کا شکار ہونے والی خواتین 20 ہفتے سے زیادہ عرصے کا حمل ضائع کرنا چاہتی ہیں اور عدالت نے ایسے تمام معاملات ڈاکٹروں کے سپرد کیے ہیں۔ انڈین حکومت کی ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ بچے انڈیا میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں۔