واشنگٹن/ تہران۔ ایران کے 13 افراد اور 12 اداروں اور کمپنیوں پرامریکہ کی طرف سے پابندی لگا دیئے جانے کی مذمت کرتے ہوئے ایران نے کہا ہے کہ وہ بھی علاقائی دہشت گرو گروپس کی مدد کرنے والے امریکی افراد اور اداروں پر قانونی پابندیاں لگائے گا۔ ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن نے وزارت خارجہ کے ایک بیان کے حوالے سے یہ خبر دی ہے۔
اس سے قبل ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ہم کبھی لڑائی شروع نہیں کریں گے ہم صرف اپنے دفاعی وسائل پر بھروسہ کر سکتے ہیں۔ ایک آن لائن خبر یہ بھی ہے کہ امریکہ نے اپنا ایک تباہ کن بحری جہاز یوایس ایس کول یمن کےساحل کے واقع آبی گذرگاہ آبنائے باب المندب کی طرف بھیج دیا ہے جس کا مقصد اسے ایران سے قربت رکھنے والے حوثی قبائل سے محفوظ رکھنا ہے۔ ایران کے جن 13 افراد اور 12 اداروں اور کمپنیوں پر امریکہ نے جو پابندیاں عائد کی ہیں وہ ایران پر پابندیوں کے اختیارات کے تحت ہیں۔
صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اس سلسلے میں فوجی کارروائی سے بھی انکار نہیں کیا ہے ۔ میزائل تجربہ کے فورا بعد امریکہ نے ایران کو وارننگ دی تھی۔ ایران نے اسے مسترد کرتے ہوئے اشتعال انگیز قدم قرار دیا تھا۔ ساتھ ہی میزائل پروگرام جاری رکھنے کی بھی بات کہی۔ اس سے خفا ہوکر ٹرمپ حکومت نے جمعرات کو ایران کے خلاف نئے سرے سے پابندی لگانے کے اشارے دیئے تھے۔ اسی ضمن میں جمعہ کو مذکورہ پابندیوں کا اعلان کر دیا گيا تھا۔ تازہ پابندیاں لبنان میں قائم ایک نیٹ ورک پر بھی لگائی گئی ہیں جسے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی چلاتا ہے۔ وہائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ پر کل شائع ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ محکمہ خزانہ نے کچھ افراد اور اداروں پر پابندیاں لگائی ہیں جن میں سے کچھ متحدہ عرب امارات، لبنان اور چین میں ہیں۔ یہ اقدام صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 جنوری کو اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد ایران کے خلاف پہلی کارروائی ہے۔
خبررساں ادارے رائٹرز کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نئی پابندیاں جن شعبوں پر لگائی گئی ہیں ان پر 2015 کے جوہری معاہدے کے باوجود پہلے ہی پابندیاں نافذ ہیں جن میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی اور ایران کا بیلسٹک میزائل پروگرام شامل ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ آج نافذ کی جانے والی پابندیاں ایران کی ان سمندر پار ضرررساں سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق امریکی محکمہ خزانہ کی جاری کوششوں کا حصہ ہیں جو امریکی محکمہ خارجہ کے جوائنٹ کمپری ہنسو پلان آف ایکشن کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔ یہ مغربی طاقتوں کے ساتھ ایران کے جوہری معاہدے کی جانب اشارہ تھا۔