واشنگٹن۔ امریکہ جنوبی بحیرہ چین کے مسئلے میں فریق نہیں۔ یہ بیان چین حکومت کی جانب سے دیا گیاہے۔ چین نے جنوبی بحیرہ چین کے علاقوں پر اپنے حق کو ملک کی’ ناقابل اعتراض خودمختاری’ قرار دیتے ہوئے ٹرمپ انتظامیہ کے اس بیان کو سختی سے مسترد کیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ امریکہ چین کی خطے کے متنازع علاقوں پر عملداری کو روکے گا۔ چین کی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ بیجنگ خطے میں اپنے حقوق کے تحفظ پر سختی سے قائم رہے گا۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان شون سپائسر نے پیر کو کہا تھا کہ امریکہ خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنائے گا۔ اس سے پہلے سابق اوباما انتظامیہ نے بحیرہ جنوبی چین کے تنازع سے خود کو دور رکھا تھا تاہم اس نے گذشتہ برس وہاں اپنا جنگی بحری جہاز اور بی 52 بمبار جہاز بھیجا تھا۔
موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کے بارے میں سخت موقف اپنایا ہے اور وائٹ ہاؤس کے ترجمان شون سپائسر نے نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ ’وہ جزائر جو حقیقت میں بین الاقوامی پانیوں میں ہیں اور چین کا باقاعدہ حصہ نہیں ہیں، ہم وہاں بین الاقوامی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنائیں گے اور انھیں کسی دوسرے ملک کو لینے سے روکیں گے۔‘
اس پر چین کی وزارتِ خارجہ نے ردعمل میں کہا ہے کہ’ امریکہ جنوبی بحیرہ چین کے مسئلے میں فریق نہیں ہے۔’چینی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ہؤ شینگ نے کہا ہے کہ’چین اس تنازع میں تمام متعلقہ ممالک سے پرامن بات چیت کرنے پر قائم ہے اور وہ بین الاقوامی سمندر میں جہاز رانی اور پروازوں کی آزادانہ نقل و حرکت کے اصولوں کا احترام کرتا ہے۔’ تاہم ترجمان نے مزید کہا ہے کہ’ہماری پوزیشن واضح ہے اور ہمارے اقدامات قانونی ہیں۔’
خیال رہے کہ چین نہ صرف لگ بھگ سارے ہی جنوبی بحیرۂ چین پر ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایسے جزیروں پر بھی جن پر کئی دوسرے ملک بھی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس کے بعد خطے میں کافی مایوسی پھیلی جب چین نے یہاں مصنوعی جزیرے بنائے اور ان تک رسائی کو محدود کیا۔ یہاں ویتنام، فلپائن، تائیون، ملائیشیا اور برونائی بھی ملکیت کے دعوے دار ہیں۔