سری نگر: وادی کشمیر میں 8 جولائی کو حزب المجاہدین کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد بھڑک اٹھنے والی احتجاجی لہر جس میں تاحال 46 افراد ہلاک جبکہ 4 ہزار دیگر زخمی ہوگئے ہیں، پر قابو پانے کے لئے عائد کرفیو کی وجہ سے وادی بھر میں جمعرات کو معمولات زندگی مسلسل تیرہویں روز بھی درہم برہم رہے ۔
وادی کے اطراف واکناف سے موصولہ اطلاعات کے مطابق پوری وادی بشمول تمام بڑے قصبہ جات اور تحصیل ہیڈکوارٹروں کے علاوہ گرمائی دارالحکومت سری نگر میں آج بھی کرفیو کا نفاذ جاری رہا۔ اگرچہ علیحدگی پسند قیادت سید علی گیلانی، میرواعظ مولوی عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے اشیائے خوردونوش سٹاک کرانے کے لیے آج 2بجے سے ہڑتال میں چند گھنٹوں کا وقفہ دیے جانے کا اعلان کیا تھا، لیکن ریاستی پولیس نے کرفیو میں نرمی دینے سے انکار کرتے ہوئے کرفیو کو سختی کے ساتھ جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ ایک پولیس ترجمان نے جمعرات کی دوپہر یہاں جاری ایک بیان میں کہا ‘وادی بھر میں عائد کرفیو اور پابندیوں میں کوئی نرمی نہیں ہوگی۔ کرفیو اور پابندیاں اگلے احکامات تک سختی کے ساتھ بدستور نافذ رہیں گی’۔
ریاستی پولیس نے کرفیو کا نفاذ جاری رکھنے کا اعلان اُس وقت کیا جب ریاستی وزیر تعلیم اور حکومتی ترجمان نعیم اختر کے مطابق آج شمالی کشمیر کے بارہمولہ اور بانڈی پورہ اور وسطی کشمیر کے بڈگام اور گاندربل اضلاع میں اسکول کھولے جانے تھے ۔سرکاری ذرائع نے یو این آئی کو بتایا کہ اِن چار اضلاع میں کرفیو، پابندیوں اور ہڑتال کے باعث کسی بھی اسکول میں تعلیمی سرگرمیاں بحال نہ ہوسکیں۔ ضلع سری نگر بالخصوص بالائی شہر کے علاقوں نٹی پورہ، بڈشاہ نگر، نوگام، دلسوز کالونی اور پمپوش کالونی میں رہائش پذیر لوگوں نے کہا کہ عائد کرفیو میں جمعرات کو غیرمعمولی سختی لائی گئی۔ پمپوش کالونی کے لوگوں نے یو این آئی کو بتایا ‘جمعرات کی علی الصبح سے ہی پولیس اہلکار گاڑیوں پر نصب لاوڈ اسپیکروں کے ذریعے کرفیو کے نفاذ کا اعلان کررہے تھے اور لوگوں کو اپنے گھروں کے اندر ہی رہنے کو کہہ رہے تھے ۔
سری نگر کے ڈاون ٹاون اور شہر خاص کے علاوہ مضافاتی علاقہ بمنہ میں بھی جمعرات کو عائد کرفیو میں مزید سختی لائی گئی۔ اس دوران ریاستی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے جمعرات کو یہاں ڈل جھیل کے کناروں پر واقع شیر کشمیر انٹرنیشنل کنونشن سنٹر میں کشمیر کی موجودہ امن و قانون کی صورتحال پر تبادلہ خیال کے لئے کل جماعتی میٹنگ کی صدارت کی۔ تاہم ریاستی کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت نیشنل کانفرنس نے اس میٹنگ کا بائیکاٹ کیا۔
دریں اثنا وادی کے اطراف واکناف سے بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات کے دوران شبانہ احتجاجی مظاہروں کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ احتجاجی مظاہروں کے دوران چند ایک مقامات پر احتجاجی مظاہرین اور سیکورٹی فورسز کے مابین جھڑپیں بھی ہوئیں جس کے دوران سیکورٹی فورسز نے پتھرا ¶ کے مرتکب احتجاجی مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس اور ہوائی فائرنگ کی۔ اِن اطلاعات کے مطابق وادی کے بیشتر علاقوں میں علیحدگی پسند قیادت کی کال پر رات کے 8:30سے 9:00بجے تک بلیک اوٹ کیا گیا جبکہ مساجد میں آزادی حامی نعرے بازی کی گئی۔وادی میں بدھوار کو دن کے اوقات میں ‘یوم سیاہ’ کے موقعے پر سینکڑوں مقامات، مکانات اور دوکانوں پر کالے جھنڈے لہرائے گئے ۔
خیال رہے کہ علیحدگی پسند قیادت نے 20جولائی کو ‘یوم سیاہ’ کے طور منانے کا اعلان کرتے ہوئے تمام مقامات، مکانات اور دوکانوں پر کالے جھنڈے لہرانے ،رات کے 8:30سے 9:00بجے تک بلیک اوٹ کرنے اور تمام چھوٹی بڑی مساجد میں تقاریب کا اہتمام کرنے کی اپیل کی تھی۔ کشمیر میں حالیہ دنوں ہونے والے شہری ہلاکتوں کے خلاف خطہ لداخ کے قصبہ کرگل میں جمعرات کو مکمل ہڑتال کی گئی۔ ایک رپورٹ کے مطابق قصبہ میں دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سرکوں پر گاڑیوں کی آمدورفت معطل رہی۔ امام خمینی (رح) میموریل ٹرسٹ نے آج کرگل میں مکمل ہڑتال کی کال دی تھی۔ جہاں برہان وانی کی ہلاکت کے ایک روز بعد یعنی 9 جولائی کو بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہروں کے خدشے کے پیش نظر جنوبی کشمیر کے 4 اضلاع اور گرمائی دارالحکومت سری نگر کے شہر خاص اور ڈاون ٹاون میں کرفیو کا نفاذ عمل میں لایا گیا تھا، وہیں کشمیر انتظامیہ نے پھر 15 جولائی کو نماز جمعہ کے بعدسیکورٹی فورسز کی کاروائی میں ہلاک ہونے والے شہریوں کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کرنے اور پرامن احتجاجی مظاہرے منظم کرنے سے متعلق علیحدگی پسند قیادت کی مشترکہ اپیل پر عمل درآمد کو روکنے کے لئے وادی بھر میں کرفیو نافذ کردیا تھا، جس کا نفاذ تاحال جاری رکھا گیا ہے ۔ کشمیری علیحدگی پسند قیادت نے وادی میں جاری ہڑتال میں 25 جولائی تک توسیع کا اعلان کیا ہے ۔ انہوں نے کل اپنے ایک مشترکہ بیان میں جمعة المبارک 22جولائی کو پورے عالم میں ‘کشمیر ڈے ‘ منانے کی اپیل دہراتے ہوئے 23جولائی کو ہڑتال اور نماز مغرب کے بعد مساجد میں نعرے وترانے بلند کرنے ، 24جولائی اتوار کو دن میں ہڑتال اور شام کو بلیک اوٹ کرنے اور 25جولائی سوموار کو ہڑتال اور قصبہ اننت ناگ میں حالیہ دنوں کے دوران میں ہلاک ہوئے نوجوانوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک بین ریاستی جلسہ عام کرنے کی کال دی ہے ۔
کشمیر انتظامیہ نے کسی بھی احتجاجی مظاہرے کی قیادت کرنے سے روکنے کے لئے بیشتر علیحدگی پسند لیڈران کو 9 جولائی سے مسلسل خانہ یا تھانہ نظربند رکھا ہے ۔ مسلسل کرفیو کے باعث وادی کے بیشتر حصوں میں لوگوں کو اشیائے ضروریہ خاص طور پر دودھ، سبزیوں، ادویات اور روٹی کی شدید قلت کا سامنا ہے ۔ سیکورٹی ذرائع نے بتایا کہ امن وامان کی بحالی اور احتیاطی اقدامات کے طور پر کرفیو کو آج بھی جاری رکھا گیا ہے ۔ کرفیو کو سختی سے نافذ کرنے کے لئے ہزاروں ریاستی پولیس اور سی آر پی ایف کے اہلکاروں کو وادی بھر میں تعینات کیا گیا ہے ۔وادی میں کرفیو کے اطلاق کے حوالے سے ضلع مجسٹریٹوں کی جانب سے جاری کردہ احکامات میں کہا گیا تھا کہ کسی بھی شہری یا گاڑی ماسوائے طبی ایمرجنسی کو کرفیو کے دوران چلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ وادی میں برہان وانی کی ہلاکت کے بعد بھڑک اٹھنے والی احتجاجی لہر کے دوران تاحال 46 افراد ہلاک جبکہ قریب 4000دیگر زخمی ہوگئے ہیں۔ہلاک شدگان میں 3 خواتین اور ایک پولیس اہلکار بھی شامل ہے ۔ بیشتر افراد سیکورٹی فورسز کی مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں۔ تین خواتین میں سے 18 سالہ جواں سال لڑکی یاسمینہ 10 جولائی کو ضلع کولگام کے دمہال ہانجی پورہ جبکہ 55 سالہ سیدہ بیگم اور 32 سالہ نیلوفر اختر18 جولائی کو ضلع کولگام کے قاضی گنڈ میں سیکورٹی فورسز کی مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہوئیں۔ وادی میں جاری احتجاجی لہر کے دوران جنوبی کشمیر سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ ثابت ہوا جہاں 40 ہلاکتیں ہوئیں۔ اِن میں ضلع اننت ناگ میں سب سے زیادہ 18 ، ضلع شوپیان میں 5 ، ضلع کولگام میں 13 اور ضلع پلوامہ میں 4 ہلاکتیں ہوئیں۔ 4000 زخمیوں میں سے 150 زخمی ایسے ہیں جو آنکھوں میں پیلٹ لگنے سے زخمی ہوگئے ہیں اور خدشہ ہے کہ اِن میں سے درجنوں اپنی بینائی کھو سکتے ہیں۔