دارالحکوت ابوجا میں ملن کی جذباتی تقریب منعقد کی گئی تھی
نائجیریا کے شہر چیبوک سے ڈھائی برس اغوا کی جانے والی درجنوں طالبات میں سے مزید 21 کو رہا کروانے کے بعد ان کے اہل خانہ کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
ان لڑکیوں کو شدت پسند جنگجو گروپ بوکو حرام نے اغوا کیا تھا۔
تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ ان لڑکیوں کی رہائی کس طرح ممکن ہوئي لیکن حکام کا کہنا ہے کہ مزید لڑکیوں کی رہائی کے لیے بات چیت جاری ہے۔
خیال رہے کہ ڈھائی سال قبل اپریل سنہ 2014 میں بوکوحرام نے 219 لڑکیوں کو اغوا کیا تھا جن میں سے 197 لڑکیاں تاحال لاپتہ ہیں۔
دارالحکومت ابوجا میں منعقدہ ملن کی اس جذباتی تقریب میں ایک لڑکی نے کہا کہ انھیں 40 دنوں تک بغیر کھانے کے گزارہ کرنا پڑا اور ایک بار تو وہ موت سے بال بال بچیں۔
تقریب میں شامل ایک اور لڑکی نے بتایا: ‘جب ایک طیارے سے بم گرایا گیا تو ہم اس وقت جنگلوں میں تھے اور ہم بچ گئے۔’
انھوں نے مقامی ہوزا زبان میں بتایا: ‘ہمیں ایک مہینے اور دس دنوں تک کوئی کھانا نہیں ملا لیکن ہمیں موت بھی نہیں آئی۔ ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں۔’
ایک دوسری لڑکی نے کہا: ‘ہم نے خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ ہم یہ دن دیکھ پائيں، خدا کی مدد سے ہم غلامی سے نکل گئے۔’
اپریل سنہ 2014 میں مجموعی طور پر 219 لڑکیاں اغوا ہوئی تھیں
گذشتہ جمعرات کو آزاد ہونے والی لڑکیوں کے اہل خانہ ان سے ملنے کے لیے بے تاب تھے۔
ایک شخص نے کہا: ‘ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ہم اپنی بیٹی کو دوبارہ دیکھ پائیں گے۔ جو لڑکیاں ابھی تک وہاں ہیں خدا جلد انھیں ان کے والدین سے ملائے۔’
نائجیریا کے حکام نے ان اطلاعات کی تردید کی ہے کہ پکڑے جانے والے بوکو حرام کے جنگجوؤں کے بدلے ان لڑکیوں کو رہائی ملی ہے۔ تاہم ایک سکیورٹی افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ چار کمانڈر رہا کیے گئے ہیں۔
جبکہ خبررساں ادارے اے پی کے مطابق سوئس حکومت نے نائجیرین حکومت کی جانب سے لاکھوں ڈالر تاوان ادا کیا ہے۔
ملن کی یہ جذباتی تقریب جمعرات کو ابوجا میں منعقد کی گئي
نائجیریا کے وزیر اطلاعات لائی محمد نے کہا کہ جمعرات کو ہونے والی رہائي باقی تمام لڑکیوں کی رہائی کے متعلق ‘پہلا قدم’ تھا۔
انھوں نے اتوار کو صحافیوں کو بتایا کہ ‘اب ہم بات چیت کے دوسرے مرحلے میں ہیں۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ یہ بہت نازک معاملہ ہے۔ ہم نے رازداری کے تعلق سے چند وعدے کیے ہیں اور ہم ان کی پاسداری کریں گے۔’
ایک رپورٹ میں یہ بھی بتایا گيا ہے کہ دو سال کی گمشدگی اور بوکو حرام کے بعض جنگجوؤں سے شادی کے بعد بعض لڑکیاں اب اپنے گھروں کو واپس نہیں جانا چاہتیں۔