فرانس میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے ملک کے 26 علاقوں میں ساحلِ سمندر پر برقینی پر عائد پابندی ختم کرنے کے لیے فرانس کی اعلیٰ ترین عدالت سے رجوع کیا ہے۔ فرانس میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور اور اسلاموفوبیا مخالف ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ یہ پابندی فرانس کے قوانین کے خلاف ہے۔
فرانس کے 26 قصبوں کے میئروں نے امن و امان کی صورت حال برقرار رکھنے اور سیکیولرزم کے بنیادی اصول کے تحت ساحل پر برقینی پہننے پر پابندی لگائی تھی۔ برقینی پر پابندی کے خاتمے کے لیے انسانی حقوق کی تنظیموں نے نیس کی عدالت سے رجوع کیا لیکن انھیں کامیابی نہیں ہوئی جس کے بعد انھوں نے یہ درخواست فرانس کی سب سے بڑی عدالت کونسل آف سٹیٹ میں جمع کروائی ہے۔
امکان ہے کہ کونسل آف سٹیٹ اگلے 48 گھنٹوں میں اس کے متعلق فیصلہ جاری کرے گی، لیکن ملک کے وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ اگر کوئی ’بہت ہی غیر معمولی‘ اقدام نہ ہو تو ایسا کوئی قانون نہیں ہے جو میئروں کو فیصلہ کرنے سے روکے۔
فرانس میں ایک عوامی سروے کے مطابق عوام کی بڑی تعداد نے برقینی پر پابندی کی حمایت کی ہے لیکن مسلمانوں کا کہنا ہے کہ انھیں غیر منصفانہ انداز میں ہدف بنایا جا رہا ہے۔برقینی پر پابندی کے اس فیصلے سے فرانس کی حکومت میں شامل سینیئر ارکان کی رائے بھی تقسیم ہو گئی ہے۔
برقینی پر پابندی کے خاتمے کے لیے انسانی حقوق کی تنظیموں نے نیس کی عدالت سے رجوع کیا لیکن انھیں کامیابی نہیں ہوئی۔ فرانس کے وزیراعظم نے ایک بحث کے دوران کہا تھا کہ برقینی پوش خواتین جمہوریہ فرانس کی مزاحمت کو آزما رہی ہیں جبکہ ملک کے وزیر تعلیم نے اس پابندی پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ساحل پر خواتین کے کپڑوں کا اسلامی جہادی تنظیموں سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔
فرانس میں یہ تنازع اُس وقت سامنے آیا جب نیس کے ساحل پر پولیس برقینی پر عائد پابندی کو یقینی بناتے ہوئے ایک خاتون سے برقینی اتروا رہی تھی۔ سوشل میڈیا پر اس تصویر کے وائرل ہونے کے بعد کئی افراد نے بہت غصے کا اظہار کیا۔
فرانس میں ہیومن رائٹس لیگ اور اینٹی اسلامو فوبیا ایسوسی ایشن نے زور دیا کہ برقینی پر پابندی، آزادی اظہار، مذہب اور کپڑوں کے خلاف ہے۔