صالحہ رضوی
+ 91 9336308818
ایک عورت ہماری ماں بھی ہے، بیوی بھی، بہن اور بیٹی بھی ہے۔ اپنے ہر کردار میں یہی عورت سب کے دلوں میں اپنی جگہ بناتی ہوئی چلتی رہتی ہے۔ والدین کے گھر میں عزت سے زندگی بسر کرتی ہے شوہر کے گھر میں خاندان و مائکے کی عزت بڑھاتی دیکھی جا سکتی ہیں، بھائی کے لئے جان نثار کرتے ہوئے آپ بہنوں کی حقیقت جانتے ہی ہونگے۔ اور ماں باپ کے لئے روتی بلکتی بیٹیاں ہی ہیں۔
اگر چہ گھر کا ماحول سخت قوانین والا کیوں نہ ہو بیٹیاں سسک کر زندگی بسر تو کر لیں گی لیکن وہ اُف نہیں کریں گی۔ کیونکہ وہ ایک عورت کا جذبہ رکھتی ہیں۔ عورت وفا پیشہ اور ایثار و محبت کا لازوال شاہکار ہے۔ ماں، بیوی، بہن، بیٹی چاہے وہ ان میں سے کسی بھی روپ میں ہو اس کا ہر رشتہ تقدس کا داعی ہے۔ وہ عہدوفا کی سچی اور کردار کی بے داغ ہوتی ہے۔ لیکن کیا آج معاشرے میں اس کو وہ اہمیت حاصل ہے جس کی وہ حقدار ہے۔
اسلام ایک ایسا واحد مذہب ہے جس نے عورت کو اس کا صحیح مقام و مرتبہ دیا۔ اسے عزت و توقیر عطا کی۔ اسلام نے عورت کو ظلم کی کال کوٹھری سے نکال کر اسے اس مقام پر بٹھا دیا جس کی وہ حقدار تھی۔
کبھی ہم نے سوچا کہ ہمارے معاشرے کی عورت اتنی مجبور اور بے بس کیوں ہے۔ کبھی ہم نے غور کیا کہ آج عورت کی عزت کیوں محفوظ نہیں رہی۔
٭علاج کے نام پر مسیحا،
٭انصاف کے نام پر قانون کے محافظ،
٭تعویز اور ٹونے ٹوٹکے کے نام پر جعلی پیر ،
٭ حصول علم کی خواہش پر اساتذہ عورت کو بے آبرو کر دیتے ہیں۔
آج بازار سے لیکر اسپتال تک اور کالج سے لیکر گھر کی چاردیواری تک عورت کی عزت کہیں بھی محفوظ نہیں رہی۔ خدا جانے مرد کی انفرادی غیرت سو گئی یا اجتماعی غیرت موت کے گھاٹ اُتر گئی ہے۔یا یہ لوگ معاشرے کی ہر عورت کو حوس کی بھوک مٹانے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ مرد عورت کو کمزور سمجھتا ہے اور پھر ہر دور میں ناپاک خواہشات کے حامل لوگ عورت سے زور و زبردستی کر عصمت لوٹ کر زیادتی کرتے آئے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہم نے عورت کو اس کا صیحیح مقام دے دیا ہے لیکن یہ ہم سب کی بہت بڑی بھول ہے۔ عورت باپ کے گھر میں ہو تو شادی تک پابندیوں میں گھری رہتی ہے اور شادی کے بعد سسرال والوں کی پابندیاں جھیلنی پڑتی ہیں، جہیز کم ملنے یا نہ ملنے پر ان کی جلی کٹی باتوں پر ساری زندگی گزار دیتی ہے اور کبھی سسرال والوں کے مزاج کے خلاف کوئی بات ہو جائے تو اس کا شوہر طاقت استعمال کر کے اسے مارپیٹ سکتا ہے اور طلاق جیسا گھناؤنا لفظ سنا کر اسے ذلیل و رسوا کر سکتا ہے۔ عورت کیا کیا باتیں اور کون کون سے ظلم برداشت نہیں کرتی، اس کے باوجود وہ سارا دن کولہو کے بیل کی طرح کام کرتی ہے گھر کو بناتی سنوارتی ہے، بچوں کی تربیت کرتی ہے لیکن بدلے میں اسے کیا ملتا ہے ذلت اور رسوائی کا داغدار تمغہ۔
عورت کے چار فورس ہیں۔ ماں، بیوی، بہن، بیٹی، ان چاروں رشتوں میں وہ پیار و محبت کی سچی تصویر ہے۔ عورت محبت کی دیوی ہے، کیونکہ اس کا ضمیر محبت سے بنا ہے۔ وہ جب محبت کرتی ہے تو ٹوٹ کر کرتی ہے اور اس میں کسی کو ذرہ برابر بھی شریک نہیں کر سکتی۔
اب تک کا سب سے بڑا اور شرمناک حادثہ
اس درد ناک حادثے کا شکار یہ لڑکی کیسے جی پائے گی۔ خوف کا گھپ اندھیرا اس کے ساتھ تا عمر رہے گا۔ اس کی آگے کی زندگی کے بارے میں ہم سب نے کیا سونچا ہے ؟ اگر ہم لڑکی کی کیفیت اور حالت پر غور کرے تو لڑکی کے سامنے ہر وقت وہ خوفناک منظر گھومتا رہے گا، اسے خود سے گھنن آئے گی، ڈری سہمی تا عمر روتی بلکتی رہے گی، حوس کے پجاری یہ لوگ سنگسار کرنے کے لائق بھی نہیں بلکہ انھیں زندہ رکھ کر ان کے جسم کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے چیل کوئوں کو کھلا دینا چاہیے۔ ان وہشی درندوں نے اس کوکھ کو بھی زخمی کر دیا جس کوکھ سے انھوں نے جنم لیا۔ ہمارا ترقی یافتہ ملک جہالت کی اس گھنائونی سونچ کو کیوں نہیں بدل پارہا ہے کہ عورت صرف اور صرف حوس کی دیوی ہے۔ نابالغ بچیاں ہو یا سمجھدار و ہوشیار لڑکیاں ہو یا پھر 72سال کی ضعیفہ ہو ،موقع تلاش کرکے ہماری مائوں ، بہنوں ، بیٹیو ںکی عصمت لوٹی جاتی ہیں سب کو کچلا مسلا اور روندا جاتا ہے، گھر کی چار دیواری ہو یا دوڑتی بھاگتی گاڑیاں ہو ان کو اپنے قبضے میں کرکے زورو زبردستی کرکے حوس کا شکار بنا کر چلتی بس اور ٹرین سے پھینک دیا جاتا ہے۔ ان وحشی جانوروں کے سینے میں دل نہیں پتھر ہیں۔
دہلی میں چلتی بس میں ایک لڑکی کے ساتھ گینگ ریپ کے معاملے نے پورے ملک کو دہلا دیا ہے۔ دہلی کو پیرس بنانے کا خواب دیکھنے والے حاکم بتائیں کہ یہ شہر کہاں جا رہا ہے؟ دلی کی ریاست نے کتنی ترقی کی؟ ترقی یافتہ ملک اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کے معاشیاتی حالات اچھے ہوں، کرائم کے نام پر سخت قانون نافذ کئے گئے ہوںجہاں انسان گناہ کرنے سے گریز کرے۔ اسپتالوں میں تمام اعلات و سہولیات فراہم کی جاتی ہوں چیک اپ کے نام پر کسی کی عزت نا لوٹی جائے۔ اس وقت ہم مانیں گے کہ اس ملک نے ترقی کر لی ہے۔ اب آئیے دلی کی بات کرے سڑکے پر چلنے والا محفوظ نہیں کیونکہ آوارہ بسیں تیز رفتاری سے انسانوں کو روندتی کچلتی بھاگ رہی ہے۔ سڑک پر چلتی عورتوں و لڑکیوں کو زبردستی گاڑیوں میں گھسیٹا جاتا ہیں اور ان کے ساتھ زور و زبردستی کی جاتی ہیں ان کی عصمت لوٹی جاتی ہے۔ اب حد تو یہ ہو گئی ہے کہ بس میں بیٹھنے والی عورتیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ چلتی بس میں عورتوں و لڑکیوں کی عصمت لٹ رہی ہیں۔ یہاں کون سا نظام چلتا ہے،؟ کس کا قانون چلتا ہے؟ جب ایک پارش علاقے میں رات کے نو بجے بھی ایک لڑکی اپنے دوست کے ساتھ محفوظ اپنے گھر نہیں پہنچ سکتی تو کیسے مانا جائے کہ یہاں سخت قانون نافذ ہے یہاں کوئی نظام کام کرتا ہے؟
کسی بھی گھر کو چلانے کے لئے نظام کا قائم ہونا ضروری ہے ۔ جس گھر کا جتنا اچھا نظام ہوگا وہ گھر اتنا اچھا مانا جائے گا۔ یہاں تو بات ہے ملک کی ۔ دلی جیسی جگہ پر کوئی نظام کیوں نہیں کام کر رہا ہے۔دل کو دہلا دینے والی دلی میں ہونے والے اندوہناک واقعات اور حادثات جس نے پوری دنیا کو دہلا دیا ہے۔ ایسی وارداتیں یہاں پہلے بھی ہو چکی ہیں۔ ہر واقعہ کے بعد انتظامیہ کے سارے انتظامات دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ کیوں یہاں کی پولیس ہندوستانی فلم کی پولیس نظر آتی ہے۔ ہر حادثات و واقعات کے بعد بیان دیتی نظر آتی ہے ۔کیا یہاں کوئی خوفیا ایجنسی کام نہیں کر رہی ۔دہلی شہر میں ہر سال جنسی تشدد کے سینکڑوں واقعات ریکارڈ کیے جاتے ہیں اور اسی وجہ سے اس شہر کو ہندوستان میں جنسی زیادتی کا مرکز بھی کہا جاتا ہے۔
اتوار کی رات کو گینگ ریپ (جنسی زیادتی) کے اس معاملے کے اگلے ہی دن عصمت دری کے دو اور کیس سامنے آ گئے۔یعنی یہ مانا جا رہا ہے کہ ہر 18 گھنٹے میں یہاں ایک ریپ ہوتا ہے۔ ( این سی آر بی ) ــ’’نیشنل کرائم ریکاڈ بیورو‘‘ کے مطابق سال 2010 میں عصمت دری کے 414 معاملات درج ہوئے تھے جبکہ 2011 میں مزید اضافہ کے ساتھ ان کی تعداد 568 تک پہنچ گئی۔
یہ تو درج معاملے ہیں۔ کئی معاملے تو عزت و غیرت کے مدد نظر سامنے آتے ہی نہیں ہیں۔ حالانکہ پورے ملک کا حال خاصہ اچھا نہیں ہے۔ سال 2011 میں ملک بھر میں عصمت دری کے کل112 7, واقعات سامنے آئے، جب کہ 2010 میں ,484 5معاملہ ہی درج ہوئے تھے.یعنی اس میں 29.7 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ اعداد و شمار ہمارے مہذب سماج کو باُجاگر کرتے نظر آ رہے ہیں۔
ہر22ویں منٹ پر جنسی زیادتی کا ایک کیس وجود میں میں آتا ہے۔
ایسا ترقی یافتہ ملک ہے میرا: ہر 22 ویں منٹ پر ایک ریپ کیس
دہلی:اس ملک میں ریپ کا بڑھتا گراف اذیت ناک تو ہے ساتھ ہی شرمناک بھی ہے۔ہندوستان میں ہر 22 منٹ پر ایک ریپ ہو رہا ہے۔ ہر 76 منٹ پر ایک نابالغ بچی کے ساتھ زور زبردستی کرکے اسکی عصمت لوٹی جا رہی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ حال ہی میں والد اور بھائی کی طرف سے ریپ کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔ کیرالہ میں ایک باپ اپنی 6 سال کی نابالغ بیٹی کو جبراََ شراب پلا کر دوستوں کے ساتھ ریپ کرتا تھا۔
ریپ جیسا گھنائونا جرم کسی ایک ریاست یا شہر تک متعین نہیں ہے۔ ’’نیشنل کرائم ریکاڈ بیورو‘‘ (این سی آر بی) کی رپورٹ پر نظر ڈالیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ مشرق ہو یا مغرب، عصمت دری کے واقعات بلکہ وارداتیں ہر جگہ ہو رہی ہیں۔ گزشتہ تین دہائیوں میں ریپ کے معاملے قتل کی وارداتوں سے آگے نکل چکے ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ عصمت دری کے واقعات میں دہلی دوسرے شہروں سے کہیں آگے ہے۔ دوسری ریاستوں اور شہروں میں بھی یہ فکر کا موضوع ہے۔
’’نیشنل کرائم ریکاڈ بیورو‘‘ رپورٹ کے مطابق، جنوب و مشرق کی چھوٹی ریاستوں کے علاوہ جھارکھنڈ جیسی چھوٹی ریاست میں عصمت دری کے حادثات کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ مثبت پہلو یہ ہے کہ جھارکھنڈ ملزمان کو سزا دلانے میں بھی آگے رہا۔ جبکہ دہلی اس معاملے میں سب سے فسڈی( ناکام) ثابت ہوا۔ اوسطا َ 25 سے 30 فیصد ملزمان کو اس کیس کی سماعت کے وقت سزا ملی، جبکہ زیادہ تر ریاستوں میں اس کا اوسط َ 70 فیصد تک پہنچا چکا ہے۔ جبکہ ایکسپرٹ کا یہ ماننا ہیں کہ ملزم کو سزا دلانے میں تاخیر سے ان کا حوصلہ بڑھتا ہے۔
٭1973 میں ریپ کے معاملے – 2919
٭آخری رپورٹ میں – 20262
( ’’نیشنل کرائم ریکاڈ بیورو‘‘ کا قیام 1973 میں ہوا تھا)
ریاست میں: سال بھر میں وجود میں آئے والے معاملے (ایک لاکھ کی آبادی کے حساب سے)
بہار : 795.08
دہلی : 5072.8
ہماچل پردیش : 1602.4
آسام : 17215.6
مدھیہ پردیش : 3135 4.3
راجستھان:1571 2.3
گجرات : 408 0.7
تمل ناڈو: 6861
مغربی بنگال:2311 2.6
مہاراشٹر :1599 1.5
جنوب و مشرقی ریاستوں میں ریپ کے واقعات آبادی کے حساب سے سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔
دہلی شہر میں ہر سال جنسی تشدد کے سینکڑوں واقعات ریکارڈ کیے جاتے ہیں اور اسی وجہ سے اس شہر کو ہندوستان میں جنسی زیادتی کا مرکز بھی کہا جاتا ہے۔نامہ نگاروں کے مطابق دہلی میں عوامی مقامات پر جنسی طور پر ہراساں کرنے، زیادتی اور اغوا کے واقعات کی شرح بڑھنے کے باعث خواتین کے لیے مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
2011 کے اعداد و شمار
دہلی شہری علاقہ : 412
جنئی : 47
ممبئی:194 کلکتہ :32
حیدرآباد :45
فریدآباد : 51
پونے : 91
بنگلور : 65
ہندوستان کے دارلحکومت دہلی میں تئیس سالہ طالبہ کو ایک نجی بس میں مبینہ طور اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔پولیس حکام کا کہنا ہے کہ طلبہ اپنے دوست کے ہمراہ بس میں سفر کر رہی تھیں۔ دونوں 16 دسمبر 2012 کو رات میں فلم دیکھ کر واپس گھر آ رہے تھے۔ اچانک اْن پر بس میں چھ سے ساتھ افراد نے حملہ کیا۔دوست نے لڑلی کو بچانے کی کوشش کی تو ان درندوں نے اسے خوب مارا پیٹا۔ان وحشی جانورں کو بری طرح سے نوچنا گھسیٹنا شروع کیا۔ سب نے مل کر شراب کے نشے میں دھت اس لڑکی کے سات گینگ ریپ کیا بل آخر اسے اور اس کے دوست کو بس سے باہر پھینک دیا گیا۔ دونوں اسپتال میں زیر علاج ہیں۔آپ سب سمجھدار ہیں خود اندازہ لگائیے کہ لڑکی کی جسمانی ،روحانی، اور دماغی حالت کیا ہوگی۔
ہوش میں آتے ہی ریپ متاثرہ لڑکی نے پوچھا؟
’کیا وہ پکڑے گئے؟‘‘
میری شناخت کو آپ سب عام نہیں ہونے دیئے گا۔
پھر اس لڑکی نے اپنی ماں سے کہا ! ‘ماں میں جینا چاہتی ہوں۔
ڈاکٹروں کی مانیں تو لڑکی ہوش میں، منہ میں ٹیوب لگے ہونے کی وجہ یہ اسٹوڈنٹ بول نکر نہیں بلکہ کاغذ پر لکھ کر اپنی بات کہہ رہی ہے۔ اسٹوڈنٹ یہ بات اچھی طرح سے جانتی ہے کہ اس کا معاملہ میڈیا میں آ چکا ہے۔سب طرف مظاہرے اور احتجاج ہو رہے ہیں۔وحشی درندوں نے اسے بری طرح سے اپنی حوس کا شکار بنایا ہے ۔ اس لئے ڈاکٹروں نے لڑکی کی جان بچانے کے لئے اس کے پیٹ کا آپریشن کر اس کی چھوٹی آنت نکال جو بالکل ڈیمج ہو چکی تھی۔اب وہ آئی سی یو میں وینٹی لیٹر پر ہے۔اس کا بلڈ پریشر، پیشاب، سانس لینے کی رفتار درمیانہ روی سے کام کر رہی ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق لڑکی خود سے سانس لینے کی کوشش کر تو رہی ہے لیکن وہ سانس لے نہیں پا رہی ہے۔ آنت ڈیمج ہو جانے کی وجہ سے وہ منہ سے کھانا نہیں کھا پائے گی۔ اسے نسوں کے ذریعہ غذا دینے کا کام کیا جا رہا ہے۔’ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ دو اور سرجری کرنے کے بعد اس کے جسم سے انفکشن کنٹرول کرنے کی کوشش میں کامیابی مل سکتی ۔
گھر والوں کی مانیں تو طلبہ نے اپنی ماں کو پیغام لکھا کہ’’ مجھے ابھی جینا ہے‘‘ اور اس نے بتایا کہ ان لوگوں نے میرا کریڈٹ کارڈ اور موبائل بھی چھین لیا، لیکن آپ لوگ گھبرائیے نہیں بلکہ گھر پر میرا ایک پرانا موبائل پڑا ہے اس میں میرے دو دوستوں کے نمبر ہیں۔ انہیں فون کر کے بول دیجئے گا کہ میں تین ماہ کے لئے باہر گئی ہوں۔
لڑکی کے والدین نے بتایا کہ میری بیٹی کسی شوق کی بنا پر دلی نہیں آئی تھی ورنہ یہ اپنے چھوٹے بھائیوں سے وعدہ کر کے ان کے کامیاب مستقبل کو بنانے کے پیسے کمانے کے دہلی آئی تھی!
اچھی نوکری پاتے ہیں اپنے بھائی بہنوں اور والدین کو دلی بلا لے گی۔متاثرہ لڑکی کے والد پرائیویٹ ملازمت کرتے ہیں۔وہاں انھیں ان کی صلاحیت کے مطابق تنخواہ جو گھر کے خرچے کو چلانے میں انتہائی کم ہے۔ گھر پر ماں کے علاوہ دو چھوٹے بھائی ہیں جو پڑھتے ہیں۔ والد نے بتایا کہ ہم نے بیٹی کی پڑھائی پر سارا پیسہ خرچ کر دیا۔ہمیں یقین تھا کہ یہ میرا بازو بنے گی ہم سب کو اپنی بیٹی پر ناز ہے ہم اس کی قابلیت کی قدر کرتے ہیں۔ اور ہم سب کو یہ امید تھی کہ نوکری پر لگ کر بیٹی پورے خاندان کا سہارا بنے گی۔ ہمارے خاندان میں یہ سب سے زیادہ بہادر ہے۔ اور مصیبت میں بھی کس طرح بہادری سے لڑتے ہوئے خوش رہا جاتا ہے یہ بیٹی نے ہمیں سکھایاتھا ۔آج اس کی حالت کے ذمہ دار ہمارے حالات ہیں۔ہمیں سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ میں اپنی بیٹی کو کس طرح حوصلہ دوں۔ اس بیٹی پر پوری فیملی کی امیدیں ٹکی ہیں۔خاندان پوری طرح اس پر منحصر ہے۔ بیٹی کی حالت دیکھ کر ماں۔ باپ بری طرح سے ٹوٹ چکے ہیں۔
٭ختم