سری نگر: وادی کشمیر میں 1880 ء کی دہائی میں ڈوگرہ شاہی خاندان کے تیسرے فرمانروا مہاراجہ پرتاب سنگھ کے دوران حکومت میں جب سیاحوں کا آنا شروع ہوا تو اُس وقت شاہی سواری سمجھی جانے والے تانگے آمدورفت کا واحد ذریعہ تھے ۔
کشمیر آنے والے سیاح جن میں زیادہ تعداد یورپی شہریوں کی ہوا کرتی تھی، کو تانگہ سواری کے لئے باضابطہ طور پر بکنگ کرنی پڑتی تھی۔ رفتہ رفتہ یہ شاہی سواری عام کشمیریوں کی آمدورفت کے لئے بھی استعمال ہونے لگی تھی اور تانگہ رکھنے والے گھرانوں کو امیر ترین سمجھا جاتا تھا۔ گاڑیوں کے متعارف ہونے سے قبل وادی میں ہزاروں کی تعداد میں تانگے چلتے تھے ۔ ان تانگوں کے لئے ہر ضلع و تحصیل ہیڈکوارٹر میں باضابطہ سٹینڈ تھے ۔ لیکن وقت گذرنے اور گاڑیوں کے عام ہونے کے ساتھ اب وادی میں چند گنی چنی سڑکیں ایسی ہیں جن پر تانگے اب بھی سواریوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے ہیں۔ ان سڑکوں پر چلنے والے تانگوں کی تعداد 400 سے زیادہ نہیں ہوگی ۔
کشمیر کے جن علاقوں میں تانگہ چلنے کی روایت اب بھی برقرار ہے ، ان میں شمالی کشمیر کا سوپور، پٹن، وسطی کشمیر کا ماگام اور جنوبی کشمیر کا مٹن علاقہ قابل ذکر ہیں۔ تانگہ بانوں نے اس روایت کو زندہ رکھنے کے لئے اسے آمد ورفت کا سستا ذریعہ بنایا ہے ۔قریب سات کلو میٹر کے فیصلے پر چلنے والے ان تانگوں کا کرایہ زیادہ سے زیادہ دس روپے ہے اور اگر تانگہ بان دن بھر تانگہ چلائے تو اس کی دن کی آمدنی زیادہ سے زیادہ پانچ سو روپے ہوتی ہے ۔
یو این آئی نے شمالی اور جنوبی کشمیر میں متعدد تانگہ بانوں سے بات کی جن کا مجموعی طور پر کہنا تھا کہ وہ اپنے بچوں کو اس پیشے سے وابستہ نہیں کریں گے ۔ ان کے مطابق ‘اس پیشے میں آمدن کم اور خرچہ زیادہ ہے ۔ جہاں یہ پیشہ حکومت کی عدم توجہی کا شکار ہے وہیں اب لوگ بھی تانگہ پر بیٹھ کر سفر کرنے میں دلچسپی نہیں دکھا رہے ہیں۔ حکومت تانگوں کو ہیریٹیج کا حصہ قرار دینے کے بجائے ٹریفک جام کا سبب قرار دے رہی ہے ۔ ایسی صورتحال میں کون تانگے کی لگام اپنے بیٹے کے ہاتھ میں دے سکتا ہے ‘۔
تانگہ بان نذیر احمد بٹ جو مٹن چوک سے سرنل تک اپنا تانگہ چلاتا ہے ، کا کہنا ہے ‘گاڑیوں کی تعداد زیادہ ہوجانے کی وجہ سے نہ صرف ہمارے خریدار کم ہوگئے ہیں بلکہ ہمارا سڑکوں پر تانگہ چلانا بھی دن بہ دن مشکل ثابت ہورہا ہے ۔ میں اپنے بچوں کو گھوڑے کی لگام کو ہاتھ بھی لگانے نہیں دیتا ہوں۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اس پیشے کا کوئی مستقبل نہیں ہے ۔ پہلے پہلے وادی کی ہر ایک سڑک پر تانگے چلتے تھے لیکن اب چند گنی چنی سڑکیں ہیں جن پر تانگے چلتے ہیں’۔
انہوں نے کہا ‘تانگے کو اُس سڑک پر چلانا آسان نہیں جس پر گاڑیاں چل رہی ہوں۔ میں گذشتہ بیس برس سے تانگہ چلا رہا ہوں۔ دن بھر تانگہ چلاتا ہوں تو زیادہ سے زیادہ پانچ سو روپے کما لیتا ہوں’۔ اسی روٹ پر تانگہ چلانے والے غلام محمد کا کہنا ہے کہ اس پیشے کے مستقبل کی کوئی گارنٹی نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا ‘تانگہ چلانا ہمارے خاندان کا موروثی پیشہ رہا ہے لیکن میں اب اپنے بچوں میں سے کسی کو بھی اس پیشہ سے وابستہ ہونے نہیں دوں گا۔ میرے بچے پڑھتے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ وہ کسی دوسرے اچھے سے کام کا انتخاب کرلے ۔ اس میں سڑکوں پر گاڑیاں آنے سے محنت بڑھ گئی ہے اور حکومت کو اس پیشے سے وابستہ لوگوں کا کوئی خیال نہیں ہے ‘۔
انہوں نے مزید کہا ‘گھوڑوں کا دیکھ بھال بھی آسان نہیں رہا ہے ۔ جتنا کماتے ہیں، اس کا 80 فیصد گھوڑوں کو چارہ کھلانے پر خرچ ہوتا ہے ۔ تانگہ ایک ایسی سواری ہے جس کو اگر آپ چلائیں گے بھی نہیں تب بھی آپ کی خرچی برابر ہے ‘۔ وسطی ضلع بڈگام کے قصبہ ماگام سے ہاگر پورہ پٹن تک تانگہ چلانے والے ایک شخص نے بتایا کہ انہیں اپنے تانگہ بان ہونے پر فخر ہے ۔ انہوں نے کہا ‘میں گذشتہ 35 برسوں سے تانگہ چلا رہا ہوں۔ میری آمدی کا واحد ذریعہ یہی ہے ۔ اگرچہ اس سے حاصل ہونے والی کمائی ضرورت سے بہت کم ہے ، لیکن مجھے تب بھی اپنے تانگہ بان ہونے پر فخر ہے ۔ مہنگائی کے اس دور میں گھوڑوں کو چارہ کھلانا بھی بہت مشکل ہوگیا ہے ۔ سڑکیں بھی خستہ حال ہیں ۔ ان کا نہ صرف گھوڑوں کی صحت پر برا اثر پڑتا ہے بلکہ تانگے کو بھی نقصان پہنچا ہے ‘۔ تانگہ کے ذریعہ ہر روز ماگام سے ہاگر پورہ تک سفر کرنے والے سید غضنفر کا کہنا ہے ‘ تانگہ پر بیٹھ کر سفر کرنے کا ایک الگ مزہ ہے ۔ اس پر سفر کے دوران ہم کھلی فضا میں سانس لیتے ہیں جو کہ گاڑی میں ممکن نہیں ہے ۔ یہ تانگے بادشاہوں کے وقت سے آمدورفت کا ذریعہ رہے ہیں۔
تانگوں پر سفر کرنے سے نہ صرف تانگہ بانوں کی روزی روٹی چلتی ہے بلکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے ۔ گاڑیوں کے نسبت تانگہ سواری کا کرایہ بہت کم ہے ‘۔ سید غضنفر کے ساتھ سفر کرنے والے محمد قاسم کا کہنا ہے ‘میں زیادہ تر تانگہ پر ہی سفر کرتا ہوں۔ میں گاڑی پر اسی سواری کو ترجیح دیتا ہوں۔ جب مجھے اپنے گھر سے ماگام یا ماگام سے گھر آنا ہوتا ہے تو میں تانگہ پر بیٹھ کر یہ سفر طے کرتا ہوں’۔ وادی میں شمالی کشمیر کا اپیل ٹاون سوپور تانگہ سواری کا مرکز بنا رہا ہے ۔ اگرچہ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق سوپور میں رجسٹرڈ تانگوں کی تعداد محض 75 ہے ، تاہم سوپور کی سڑکوں پر قریب 250 سے 300 تانگے دوڑتے ہیں۔ قصبہ سوپور کے تانگہ بانوں میں دونوں ہاتھوں سے محروم شمیم احمد ڈار بھی ہے جو گذشتہ 25 برسوں سے تانگہ چلا رہا ہے ۔
انہوں نے ایک مقامی انگریزی روزنامے کو بتایا ہے ‘میں نے مارکیٹ میں ہٹے کٹے افراد کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا ہے ۔ وہ اللہ کو کیا جواب دیں گے ۔ اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اگر میرے ہاتھ بھی نہیں ہیں، لیکن میں پھر بھی اپنے ضرورت کے پیسے کما لیتا ہوں’۔ شمیم کے مطابق جہاں مغربی ممالک کی حکومتیں تانگہ کلچر کو زندہ رکھ رہی ہے ، وہیں یہاں کی حکومت اسے ختم کرنا چاہتی ہے ۔ انہوں نے کہا ‘ انتظامیہ نے ہمیں بہت بار تانگے بند کرنے کے لئے کہا ۔ ہمیں گاڑیوں کی پیشکش کی گئی تھی۔ لیکن ہم نے صاف انکار کردیا۔ کیونکہ ہمارے لئے اس پیشہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے پیشہ سے وابستہ ہونا ممکن نہیں ہے ‘۔