کابل۔ افغانستان میں مزار شریف کے فوجی اڈے پر طالبان کے حملے کے بعد اتوار کو ملک میں ایک روزہ قومی سوگ کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس حملے میں سو سے زائد فوجی ہلاک ہوئے۔ افغان صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ شمالی شہر مزار شریف کے فوجی اڈے پر ہونے والا حملہ انسانی اقدار اور اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔
افغانستان کی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں نے فوجی اڈے میں قائم مسجد سے جمعے کی نماز پڑھ کر باہر نکلنے والے افراد کے علاوہ ایک کینٹین کو بھی نشانہ بنایا تھا۔ بعض زندہ بچ جانے والے متاثرین نے ایسے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ اس حملے میں اندر کے لوگوں کی بھی مدد شامل ہوسکتی ہے۔ زخمی ہونے والے ایک فوجی کا کہنا تھا: ‘جب ایک حملہ آور بیس کے اندر داخل ہوا تو پھر اس کا مقابلہ کیوں نہیں کیا گیا؟ سکیورٹی کے لیے کوئی ایک برییئر نہیں تھا بلکہ ایسی سات یا آٹھ رکاوٹیں ہیں۔’
افغانستان کی وزارت دفاع نے جمعے کے روز ہونے والے اس حملے میں ہلاک ہونے والے افراد کی صحیح تعداد نہیں بتائی ہے بلکہ ایک بیان میں بس اتنا کہا ہے کہ 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ لیکن بعض دوسرے حکام نے، اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ اس حملے میں کم از کم 140 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ایک فوجی کے والد نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ‘تین ماہ قبل میں نے اپنے بیٹے کو فوج میں بھیجا تھا، تب سے میں نے اسے دیکھا تک نہیں اور آج انھوں نے ہمیں اس کی باقیات سپرد کی ہیں۔’
سنیچر کے روز افغان صدر اشرف غنی نے علاقے کا دورہ کیا تھا اور ہسپتال پہنچ کر زخمی ہونے والے متاثرین سے ملاقات کی تھی۔ مزارِ شریف میں یہ فوجی اڈہ افغان نیشنل آرمی کی 209ویں کور کی بیس ہے۔ یہ فوجی دستہ شمالی افغانستان میں سکیورٹی کا ذمہ دار ہے اور اس کے زیرِ نگرانی علاقے میں کندوز صوبہ شامل ہے جہاں حال ہی میں شدید لڑائی دیکھی گئی ہے۔
اطلاعات کے مطابق وہاں جرمنی سمیت متعدد ممالک کے فوجی مقیم ہیں تاہم اب تک یہ واضح نہیں کہ کیا کسی غیر ملکی فوجی کو بھی کوئی نقصان پہنچا ہے۔ فوجی ترجمان کا کہنا ہے کہ طالبان جنگجو فوجی وردی پہن کر اڈے میں داخل ہوئے تھے اور پھر انھوں نے حملے کی کارروائی شروع کی۔ حکام کا کہنا ہے کہ حملے کے بعد کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی لڑائی میں دس طالبان جنگجو بھی مارے گئے ہیں۔