مزار شریف۔ مزار شریف میں فوجی اڈے پر طالبان کے حملے میں 140 فوجی ہلاک ہو گئے۔ افغانستان میں عسکری حکام کا کہنا ہے کہ شمالی صوبے بلخ میں ایک فوجی اڈے پر ہونے والے حملے میں کم از کم 140 افغان فوجی ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ حملے کے بعد کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی لڑائی میں دس طالبان جنگجو مارے گئے ہیں۔ تاہم بعض اطلاعات کے مطابق ہلاک اور زخمی ہونے والے فوجیوں کی تعداد اس سے زیادہ ہے۔ یہ حملہ جمعے کو افغان شہر مزار شریف میں ایک فوجی اڈے میں واقع مسجد کے قریب کیا گیا۔ اس حملے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے افغان فوج کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔
فوجی ترجمان کا کہنا ہے کہ طالبان جنگجو فوجی وردی پہن کر اڈے میں داخل ہوئے اور پھر انھوں نے حملہ کر دیا۔ ایک آرمی کمانڈر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ جمعے کی شام تک جائے وقوع سے فائرنگ کی آوازیں سنائی دیتی رہیں اور کم از کم ایک حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ افغان فوج کے ایک ترجمان نصرت اللہ جمشیدی کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں نے اڈے میں واقع مسجد اور کنٹین میں فوجیوں کو نشانہ بنایا۔
مزارِ شریف میں یہ فوجی اڈہ افغان نیشنل آرمی کی 209ویں کارپ کی بیس ہے۔ یہ فوجی دستہ شمالی افغانستان میں سکیورٹی کا ذمہ دار ہے اور اس کے زیرِ نگرانی علاقے میں کندوز صوبہ شامل ہے جہاں حال ہی میں شدید لڑائی دیکھی گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق وہاں جرمنی سمیت متعدد ممالک کے فوجی مقیم ہیں تاہم اب تک یہ واضح نہیں کہ کیا کسی غیر ملکی فوجی کو بھی کوئی نقصان پہنچا ہے۔
یاد رہے کہ حال ہی میں افعانستان کی وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ ننگرہار میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے ٹھکانے پر 9800 کلوگرام وزنی بم کے حملے میں کم از کم 36 جنگجو ہلاک ہوئے تھے۔ جی بی یو 43/بی نامی اس بم کو ‘بموں کی ماں’ کہا جاتا ہے اور یہ تاریخ کا سب سے بڑا غیر جوہری بم ہے جو امریکہ نے کسی بھی کارروائی میں استعمال کیا۔