قاہرہ۔ مصرمیں قبطی گرجا گھروں پر حملوں کے بعد ملک میں ایمرجنسی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ مصر کے دو قبطی گرجا گھروں میں دھماکوں کے نتیجے میں 44 ہلاکتوں کے بعد صدر نے تین ماہ تک ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ایمرجنسی کے نفاذ سے حکام کو یہ اختیار مل جائے گا کہ وہ بغیر وارنٹ کے کسی کے گھر کی تلاشی بھی لے سکیں گے۔ اس حکمنامے کے نفاذ کے لیے پارلیمان سے منظوری لی جانا ضروری ہے۔
صدر الفاتح السیسی نے اس سے قبل ملک بھر میں فوج تعینات کرنے کا حکم دیا تھا۔ خود کو دولتِ اسلامیہ کہلانے والی شدت پسند تنظیم کا کہنا ہے کہ طنطا اور سکندریہ میں ہونے والے دھماکے اس نے کیے ہیں۔ اس گروہ نے مصر میں حالیہ حملوں کے بعد مزید حملے کرنے کی دھمکی دی تھی۔
صدر السیسی نے قومی دفاعی کونسل کے اجلاس کے بعد سخت تقریر کی۔ انھوں نے خبردار کیا کہ جہادیوں کے خلاف ’طویل اور دردناک جنگ‘ ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ تمام قانونی اور آئینی اقدامات کرنے کے بعد کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ پارلیمینٹ میں اکثریت صدر کی حامی ہے۔ حالیہ برسوں میں قبطی مسیحیوں پر حملے بڑھ گئے ہیں جب سے 2013 میں فوج نے منتخب صدر محمد مرسی کا تختہ الٹ دیا اور اسلام پسندوں کے خلاف کاروائیاں شروع کر دی تھی۔
خیال رہے کہ گذشتہ سال دسمبر میں قاہرہ میں ایک چرچ میں ہونے والے دھماکے میں 25 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ فروری میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے جنگجنوؤں نے قبطی مسیحی برادری، جو کہ مصر کی دس فیصد آبادی پر مشتمل ہے، کو خبردار کیا تھا کہ انھیں مزید حملوں کے ذریعے نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ حالیہ حملہ مسیحی کلینڈر کے ایک مقدس دن کیا گیا ہے۔ جب یسوع مسیح فتح کے ساتھ یروشلم میں داخل ہوئے تھے۔
دولتِ اسلامیہ کا کہنا ہے کہ اس کے دو خودکش بمباروں نے یہ حملے کیے ہیں۔ ایک نے سینٹ جارج قبطی گرجا گھر کو طنطا کے شمال میں نشانہ بنایا۔ محکمہ صحت کے مطابق وہاں 27 افراد ہلاک ہوئے۔ اس کے کچھ ہی گھنٹوں کے بعد سینٹ مارک نامی قبطی گرجا گھر کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب پولیس نے خودکش حملہ آور کو اس میں داخل ہونے سے روکا۔ حکام کا کہنا ہے کہ حملہ آور نے چرچ کے باہر خود کو دھماکہ خیز مواد سے اڑایا جس کے نتیجے میں پولیس افسران سمیت 17 افراد ہلاک ہوئے۔