لکھنؤ : راشٹریہ علما کونسل کے صدر مولانا عامر رشادي نے بٹلہ ہاوس انکاونٹر کی طرح لکھنو انکاؤنٹر کو فرضی قرار دیتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ پولیس نے سیف اللہ کو یرغمال بناکر رکھ رکھا تھا۔ مولانا رشادي نے کہا کہ ‘بٹلہ ہاؤس کی طرز پر یہ فرضی انکاؤنٹر ہے، جو ایک سرکاری دہشت گردی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کھڑکی کے ارد گرد پولیس اہلکار گھوم رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ کراس فائرنگ ہو رہی ہے، آخر کراس فائرنگ ہو رہی تھی تو پولیس والے گھوم کس طرح کر رہے تھے۔
مولانا رشادی نے مزید کہا کہ ‘اس سے صاف ہے کہ پولیس اہلکاروں نے اسے رات میں یرغمال رکھا تھا اور اندر سے خود وہ گولیاں چلا رہے تھے، سیف اللہ کو اس طرح سے مارا گیا جیسے بکرے کو ذبح کیا جاتا ہے ، دیوار پر لگے خون سے یہی معلوم پڑتاہے۔
مولانا رشادی نے ‘انکاؤنٹر کو فرضی قرار دیتے ہوئے کہا کہ آر ایس ایس کے ایجنڈے پر انتخابات میں پولرائزیشن کے لئے یہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح ملائم سنگھ یادو کی حکومت میں رام للا کے نام پر 5 بے گناہ مسلمانوں کو شہید کردیا گیا تھا، اچھے مسلمان دبائے گئے، ہمارے بچے 15-20 سال بعد عدالتوں سے بری ہوجاتے ہیں، اکھلیش یادو اور دیگر حکومتیں اس ملک میں ہندواور مسلمانوں کے درمیان خیلج بڑھا رہی ہیں۔
الرٹ جاری کرکے لوگوں کو پھنسایا جا رہا ہے، دال روٹی کی کوئی بات نہیں کر رہا ہے، حکومتیں گھر سے بھاگنے لڑکوں کو اپنے پاس رکھتی ہیں اور موقع تلاش کر کے انہیں دہشت گرد قرار دیتی ہیں اور انہیں پھنسا دیتی ہیں۔
انہوں نے یوپی اے ٹی ایس کو اینٹی مسلم اسكواڈ بتاتے ہوئے کہا کہ پورے ایپی سوڈ سے ڈی جی پی لاپتہ ہیں، پہلے کہا کہ اس میں آئی ایس کا ہاتھ ہے اور بعد میں انکار کردیا ، جھوٹ اے ڈی جی بول رہے ہیں یا نیچے کے لوگ بول رہے ہیں، اے ٹی ایس کے لوگ پہلے بھی ایسی حرکتیں کر چکے ہیں، ان لوگوں کے خلاف جنگ لڑی جائے گی۔
مولانارشادي نے کہا کہ ‘سپریم کورٹ جاکر مطالبہ کیا جائے گا کہ ایسے حکام کا نارکو ٹیسٹ کیا جائے ، ورنہ ہندو مسلمان کو لڑائیں گے۔ ملک میں افراتفری پھیلے گی اور ملک ٹوٹ جائے گا۔ ادھر مولانا رشادی کے بیان کے خلاف یوپی کے اے ڈی جی (قانون و انتظام ) نے سیف اللہ کے اہل خانہ کو اکسانے کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا ہے۔