سری نگر:وادی کشمیر میں کرفیو کے باعث بدھ کو مسلسل بارہویں روز بھی معمولات زندگی مفلوج رہے ۔ موبائیل فون اور انٹرنیٹ خدمات کو بدستور معطل رکھا گیا ہے جس کے نتیجے میں لوگوں کا ایک دوسرے سے رابطہ مکمل طور پر منقطع ہوگیا ہے ۔
شمالی کشمیر کے بارہمولہ اور جموں خطہ کے بانہال کے درمیان چلنے والی ریل سروس بھی گذشتہ بارہ روز سے بدستور معطل ہے ۔ میڈیا پر قدغن کے باعث بدھ کو مسلسل پانچویں دن بھی وادی سے نکلنے والے اخبارات شائع نہ ہوسکے ۔ مقامی اخبارات کے مدیران و مالکان نے کل اخبارات کی اشاعت بحال کرنے سے انکار کرتے ہوئے حکومت سے کہا کہ وہ میڈیا پر عائد پابندی کی ذمہ داری قبول کرے اور ایک بیان کے ذریعے اس بات کی یقین دہانی کرائے کہ میڈیا کی سرگرمیوں میں رخنہ نہیں ڈالا جائے گا۔
وادی میں 8 جولائی کو حزب المجاہدین کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد بھڑک اٹھنے والی احتجاجی لہر کے دوران تاحال 45 افراد ہلاک جبکہ قریب 4000دیگر زخمی ہوگئے ہیں۔ ہلاک شدگان میں 3 خواتین اور ایک پولیس اہلکار بھی شامل ہے ۔
بیشتر افراد سیکورٹی فورسز کی مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں۔ تین خواتین میں سے 18 سالہ جواں سال لڑکی یاسمینہ 10 جولائی کو ضلع کولگام کے دمہال ہانجی پورہ جبکہ 55 سالہ سیدہ بیگم اور 32 سالہ نیلوفر اختر18 جولائی کو ضلع کولگام کے قاضی گنڈ میں سیکورٹی فورسز کی مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہوئیں۔ وادی میں جاری احتجاجی لہر کے دوران جنوبی کشمیر سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ ثابت ہوا جہاں 40 ہلاکتیں ہوئیں۔ اِن میں ضلع اننت ناگ میں سب سے زیادہ 18 ، ضلع شوپیان میں 5 ، ضلع کولگام میں 13 اور ضلع پلوامہ میں 4 ہلاکتیں ہوئیں۔ 4000 زخمیوں میں سے 150 زخمی ایسے ہیں جو آنکھوں میں پیلٹ لگنے سے زخمی ہوگئے ہیں اور خدشہ ہے کہ اِن میں سے درجنوں اپنی بینائی کھو سکتے ہیں۔
جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں گذشتہ شام احتجاجی مظاہرے کے دوران سیکورٹی فورسز کی کاروائی میں تین کمسن بچے پیلٹ لگنے سے زخمی ہوگئے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق قصبہ اننت ناگ کے کھنہ بل میں احتجاجی مظاہرین اور سیکورٹی فورسز کے مابین جھڑپوں میں آٹھ سالہ آصف رشید، 13 سالہ عرفات شفیع اور 14 سالہ واسق فاروق پیلٹ لگنے سے زخمی ہوگئے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق سری نگر کے صدر اسپتال اور ہڈیوں و جوڑوں کے اسپتال میں گذشتہ دس دنوں کے دوران پیلٹ اور گولیوں سے زخمی ہونے والے افراد پر قریب 450 جراحیاں کی جاچکی ہیں۔
احتجاجی مظاہروں اور شہری ہلاکتوں کے نہ تھمنے والے سلسلے کے درمیان ریاستی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کشمیر کی موجودہ امن و قانون کی صورتحال پر تبادلہ خیال کرنے کے لئے 21 جولائی کو ڈل جھیل کے کناروں پر واقع شیر کشمیر انٹرنیشنل کنونشن سنٹر سری نگر میں کل جماعتی میٹنگ طلب کی ہے ۔ ایک سرکاری ترجمان نے کہا کہ اس سلسلے میں تمام سیاسی جماعتوں بشمول پی ڈی پی ، بی جے پی ، نیشنل کانفرنس ، کانگریس ، سی پی آئی ایم ، سی پی آئی ، نیشنل پینتھرس پارٹی ، ڈیموکریٹک پارٹی نیشنلسٹ ، پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ اور دیگر جماعتوں کو دعوت نامے ارسال کئے گئے ہیں تا کہ وادی میں حالات کو معمول پر لانے اور قیام امن کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا جا سکے ۔
احتجاجی مظاہروں کی لہر پر قابو پانے کے لئے وادی کے بیشتر علاقوں میں کرفیو کو بدستور جاری رکھا گیا ہے ۔ جہاں برہان وانی کی ہلاکت کے ایک روز بعد یعنی 9 جولائی کو بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہروں کے خدشے کے پیش نظر جنوبی کشمیر کے 4 اضلاع اور گرمائی دارالحکومت سری نگر کے شہر خاص اور ڈاون ٹاون میں کرفیو کا نفاذ عمل میں لایا گیا تھا، وہیں کشمیر انتظامیہ نے پھر 15 جولائی کو نماز جمعہ کے بعدسیکورٹی فورسز کی کاروائی میں ہلاک ہونے والے شہریوں کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کرنے اور پرامن احتجاجی مظاہرے منظم کرنے سے متعلق علیحدگی پسند قیادت کی مشترکہ اپیل پر عمل درآمد کو روکنے کے لئے وادی بھر میں کرفیو نافذ کردیا تھا، جس کا نفاذ تاحال جاری رکھا گیا ہے ۔
کشمیری علیحدگی پسند قیادت سید علی گیلانی، میرواعظ مولوی عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے اپنے تازہ بیان میں ریاست بھر میں 20جولائی بدھوار کو ‘یوم سیاہ’ اور 22 جولائی جمعتہ المبارک کو ‘کشمیر ڈے ‘ کے طور منانے کا اعلان کر رکھا ہے ۔
انہوں نے اعلان کر رکھا ہے کہ 21جولائی جمعرات کو دوپہر دو بجے تک مکمل ہڑتال رہے گی، جبکہ دو بجے کے بعد وقفہ رہے گااور 22جولائی جمعۃ المبارک کو مکمل ہڑتال، آر پار اور ساری دنیا میں اس دن کو ‘کشمیر ڈے ‘ کے طور منایا جائے گا۔ کشمیر انتظامیہ نے کسی بھی احتجاجی مظاہرے کی قیادت کرنے سے روکنے کے لئے بیشتر علیحدگی پسند لیڈران کو 9 جولائی سے مسلسل خانہ یا تھانہ نظربند رکھا ہے ۔ مسلسل کرفیو کے باعث وادی کے بیشتر حصوں میں لوگوں کو اشیائے ضروریہ خاص طور پر دودھ، سبزیوں، ادویات اور روٹی کی شدید قلت کا سامنا ہے ۔ سیکورٹی ذرائع نے بتایا کہ امن وامان کی بحالی اور احتیاطی اقدامات کے طور پر کرفیو کو آج بھی جاری رکھا گیا ہے ۔
کرفیو کو سختی سے نافذ کرنے کے لئے ہزاروں ریاستی پولیس اور سی آر پی ایف کے اہلکاروں کو وادی بھر میں تعینات کیا گیا ہے ۔ وادی میں کرفیو کے اطلاق کے حوالے سے ضلع مجسٹریٹوں کی جانب سے جاری کردہ احکامات میں کہا گیا تھا کہ کسی بھی شہری یا گاڑی ماسوائے طبی ایمرجنسی کو کرفیو کے دوران چلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
میڈیا پر قدغن کے باعث بدھ کو مسلسل پانچویں دن بھی وادی سے نکلنے والے اخبارات شائع نہ ہوسکے ۔ ریاستی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی اور اُن کے صلاح کار امیتابھ متو نے گذشتہ روز دعویٰ کیا کہ وادی میں سرکاری طور پر اخبارات کی اشاعت پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی ہے ۔ خیال رہے کہ حکومتی ترجمان نے 16 جولائی کو کشمیر سے شائع ہونے والے اخبارات کے مدیران کو مطلع کیا تھا کہ وادی میں اگلے تین روز کے دوران (اتوار تا منگلوار) سنگین گڑبڑ (جس کا مقصد سرکاری ترجمان کے بقول امن وامان کو درہم برہم کرنا ہے ) کے خدشے کے پیش نظر سخت ترین کرفیو نافذ رہے گا اور اخبار کے عملے کی نقل وحرکت اور اخبارات کی تقسیم ممکن نہیں ہو پائے گی۔
اخبارات کے مدیران نے حکومتی بیان کو ذہن میں رکھتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ ایسی صورتحال میں اخبارات کی اشاعت ممکن نہیں ہوپائے گی۔ اس سے قبل ریاستی پولیس نے 15 اور 16 جولائی کی درمیانی شب کو بیشتر اخبارات کے چھاپہ خانوں پر چھاپے ڈالے تھے جس دوران نہ صرف اخبارات کی کاپیاں ضبط کی گئی تھیں بلکہ اِن میں کام کررہے ملازموں کو بھی حراست میں لے لیا گیا تھا۔ دریں اثنا وادی میں موبائیل فون اور انٹرنیٹ خدمات کو بدستور معطل رکھا گیا ہے ۔وادی کے ساتھ ساتھ جموں خطہ میں بھی انٹرنیٹ خدمات کو بدستور معطل ہی رکھا گیا ہے ۔
دوسری جانب شمالی کشمیر کے بارہمولہ اور جموں خطہ کے بانہال کے درمیان چلنے والی ریل سروس منگل کو بارہویں روز بھی معطل رہی۔ وادی کے تمام حصوں میں موبائیل انٹرنیٹ خدمات برہان وانی کی ہلاکت کے بعد بھڑک اٹھنے والی پرتشدد احتجاجی لہر کے پیش نظر 8 اور 9 جولائی کی درمیانی رات کو معطل کردی گئی تھی جبکہ جنوبی کشمیر کے چار اضلاع میں موبائیل انٹرنیٹ کے ساتھ ساتھ فون سروس کو بھی معطل کردیا گیا تھا ۔ موبائیل انٹرنیٹ خدمات کی معطلی کے 6 روز بعد 14 جولائی کو رات کے قریب آٹھ بجے وادی بھر میں موبائیل فون سروس بھی معطل کی گئی تھی۔
فون اور انٹرنیٹ خدمات کی معطلی کے باعث صارفین خاص طور پر طلباء، سیاحوں ، پیشہ ور افراد خاص طور پر صحافیوں اورتاجروں کو زبردست مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔
کشمیر سے باہر تجارت اور کاروبار کے سلسلے میں مقیم کشمیریوں نے کہا کہ وادی میں فون اور انٹرنیٹ خدمات کی معطلی کی وجہ سے وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ بات نہیں کرپاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ کشمیر میں اپنے گھر والوں اور رشتہ داروں کی سلامتی کے بارے میں شدید تشویش میں مبتلا ہیں۔
کشمیر میں کام کررہے غیر ریاستی مزدوروں اور کاریگروں نے بھی ایسے ہی تشویشات کا اظہار کیا ہے ۔ اگرچہ سرکاری مواصلاتی کمپنی بی ایس این ایل کے پوسٹ پیڈ اور لینڈ لائن کنکشنوں کو پابندی سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے ، تاہم اِن میں سے بیشتر کنکشن بلوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے بند کردیے گئے ہیں