کراچی۔ پاکستان میں نام نہاد غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کو روکنے کے لیے قانون کا مسودہ تقریباً تین برس التوا میں رہنے کے بعد حال ہی میں پارلیمنٹ سے منظوری حاصل کر سکا ہے۔ اس دوران 2000 سے زائد خواتین اس جرم کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔
خواتین کے خلاف تشدد کو روکنے کے دو قانونی مسودے جنوری 2014 سے قومی اسمبلی میں زیر التوا تھے۔ پاکستان میں حکومت نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر ان قوانین کو منظور کروانے کا اعلان کیا تھا لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ اس دوران انسانی حقوق کمیشن کے مطابق 2300 خواتین نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کر دی گئیں۔
ایسے میں سوال یہ ہے کہ حکومت ان خواتین کے قتل کی کس حد تک ذمہ دار ہے؟ وہ ارکان پارلیمنٹ اس جرم کو روکنے میں ناکامی کے کتنے ذمہ دار ہیں جنھوں نے حکومت مخالف دھرنے کو روکنے کے لیے بلائے گئے پاکستان میں پارلیمنٹ کے اجلاس میں تو شرکت کی لیکن اس دوران دس منٹ ان قوانین کی منظوری کے لیے مختص نہیں کروائے؟
خواتین کے حقوق کے نام پر بننے والی تنظیموں نے اس دوران خواتین کے قتل کے واقعات کا ریکارڈ مرتب کرنے کے علاوہ اس جرم کو روکنے کے لیے کیا کوئی اور کام بھی کیا؟ غیرت کے نام پر قتل کی حوصلہ شکنی کے لیے سخت قوانین بنانے کا مطالبہ کئی برسوں سے کیا جا رہا ہے۔
اسے اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ جب سے نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانونی سازی کا مسودہ پارلیمنٹ میں زیرِ بحث آیا، اس جرم میں مسلسل اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن کی تحقیق کے مطابق 2015 میں 1096 خواتین کو نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔ یہ ملک میں ایک سال میں اس طرح سے قتل کی جانے والی خواتین کی سب سے بڑی تعداد ہے۔