نئی دہلی۔ بیکل اتساہی ہندوستان کی مشترکہ گنگا جمنی تہذیب و ثقافت کے بڑے علمبردارتھے۔ آل انڈیا تنظیم علماء حق کے قومی صدر اور مشہور عالم دین مولانا محمد اعجاز عرفی قاسمی نے مشہور شاعر بیکل اتساہی کے انتقال پر تعزیت کا اظہا رکرتے ہوئے کہا کہ ان کی وفات سے اردو نظم و نثر کی دنیا میں جوخلا پیدا ہوا ہے، اس کا پر ہونا اور اردو ادب کو ان کا نعم البدل ملنا بظاہر مشکل ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ صرف ایک شاعرو ادیب اور محض تخلیق کار ہی نہیں تھے، بلکہ ایک سماجی خدمات گار اور بلا اختلاف مذہب انسانیت کی ہر شعبے میں خدمت کرنے والے اعلی درجے کے فراخ دل و روادار اور مخلص و ہمدرد شخص بھی تھے۔ انھوں نے کہا کہ مرحوم بیکل نے اپنے منظوم و منثور کلام میں جس طرح مقامی ہندستانی رنگ اور ہندستان کی مشترکہ گنگا جمنی تہذیب و ثقافت کو تخلیقی پیراہن عطا کیا ہے، وہ صرف انھی کا حصہ تھا۔انہوں نے کہا کہ ان کی شاعری جمہوریت اور سیکولرازم کے اصول و اقدار کی نمائندہ اور ترجمان تھی۔ انھوں نے کہا کہ مرحوم نے حمد، نعت، دوہا، منقبت ، گیت اور اعلی پایے کی غزلیں اور نظمیں بھی کہیں، مگر ان کا سب سے بڑا امتیاز تھا کہ انھوں نے ثقیل عربی فارسی الفاظ و تراکیب سے آزاد اس اردو زبان میں شاعری کی ، جس زبان کی گاندھی جی اورہمارے دوسرے مجاہدین آزادی تقسیم ہند سے پہلے زور و شور سے وکالت و حمایت کرتے تھے۔
مولانا قاسمی نے کہا کہ انھوں نے مقامی ہندستانی الفاظ اور عربی و فارسی کے امتزاج و وصال سے زبان کا ایک ایسا ہیولی تیار کیا تھا ، جس کو ہندو مسلمان اور یہاں کی دوسری با ذوق نسلی اکائیاں بے حد پسند کرتی تھیں۔
انھوں نے کہا کہ مرحوم نے اپنی خدمات کے اعتراف میں ملک کا اعلی ترین اعزاز پدم شری سمیت ملک کی مختلف اردو اکادمیوں سے بھی کئی اعلی ایوارڈ حاصل کیے، مگروہ اعزاز و اکرام کے زعم و افتخار میں کبھی مبتلا نہیں ہوئے، انھوں نے ہمیشہ اپنی جڑوں اور اپنی اسلامی تہذیب و ثقافت کے دامن سے وابستہ رہناپسند کیا اوربے دین شعرا کے ہجوم میں بھی اپنی کج کلاہی و مخصوص طرز و ادا،سر پر ٹوپی اور مخصوص وضع قطع سے یہ ثابت کردیا کہ ادب و تخلیق کی دنیا سے علم و ادب اور دین و مذہب کا کوئی تصادم نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ مرحوم نے اپنے پیچھے درجن بھر سے زائد کتابوں کا سرمایہ چھوڑا ہے، مگر وہ صرف اپنی کتابوں میں نہیں، بلکہ ان کروڑوں اردو کے پرستاروں کے دل و ماغ میں بھی زندہ و متحرک رہیں گے، جنھوں نے مشاعروں میں اور ادبی و شعری محفلوں میں انھیں خاص ترنم کے ساتھ ملواں اردو زبان میں شعر پڑھتے دیکھا اور سنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ کانگریس نے انھیں اپنے کوٹے سے راجیہ سبھا بھیجا، تو انھوں نے سماجی خدمت اور غریبوں، لاچاروں ا ور پچھڑوں مظلوموں کی ترقی و خوش حالی کے لیے بھی پارلیمنٹ میں اور پارلیمنٹ سے باہر آواز اٹھائی۔