نئی دہلی ۔ بابری مسجد کی شہادت کے ۲۴؍ برس گزرچکے ہیں اور جماعت اسلامی ہند اس تنازع کے تصفیہ کے لئے عدلیہ پر پورا اعتماد کرتی ہے اور عدلیہ کے باہر اس کے حل کی کوششوں کو یکسر مسترد کرتی ہے۔ مذکورہ بالا خیالات کا اظہارامیر جماعت اسلامی ہند مولانا سید جلال الدین عمری نے آج مرکز میں منعقد ماہانہ پریس کانفرنس میں نامہ نگاروں سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ موقر عالم دین مولانا عمری نے کہا کہ جماعت اسلامی ہند ملک کے تمام شہریوں، مسلم پرسنل لا بورڈ اور انسانی حقوق کی علم بردار تنظیموں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ بابری مسجد کی ازسر نو بحالی کے لیے پر امن جدو جہد کریں۔ انہوں نے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ۶؍ دسمبر ۱۹۹۲ء ملک کے سیاہ دنوں میں سے ایک ہے، جب شرپسندوں نے بابری مسجد کو منہدم کیا تھا۔ مولانا موصوف نے کہا کہ بد قسمتی سے جن لوگوں نے اسے شہید کیا وہ اب بھی کھلے عام گھوم رہے ہیں اور حکومت نے اب تک ان کے خلاف کسی طرح کی کارروائی نہیں کی۔ لبراہن کمیشن نے ۱۷؍ سال کی طویل مدت کے بعد جون ؍ ۲۰۰۹ء میں اپنی رپورٹ پیش کی، لیکن حکومت نے اس پر بھی کوئی ایکشن نہیں لیا۔ امیر جماعت نے کہا کہ بابری مسجد کا مقدمہ فی الوقت سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے۔ جماعت اسلامی ہند پر امید ہے کہ انشا ء اللہ فیصلہ ہمارے ہی حق میں ہوگا۔
انہوں نے زور دیکر کہا کہ جماعت اسلامی ہند اس سلسلے میں عدلیہ کے علاوہ کسی بھی امکان کو مسترد کرتی ہے۔ مذکورہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سکریٹری جنرل محمد سلیم انجینئر نے 500اور1000کے نوٹوں کو اچانک بند کرنے اور نئے نوٹوں کے جاری کئے جانے کے پس پردہ مقاصدپر شبہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے سے بلیک منی پر کتنا قابو پایا جاسکے گایہ تو بعد میں پتہ چلے گالیکن اس سے جو افراتفری کا ماحول پیدا ہواہے وہ انتہائی تشویش ناک ہے۔جماعت اسلامی ہند حکومت کے اس دعوی کو شبہ کی نظر سے دیکھتی ہے کہ اس طرح کے عمل سے بدعنوانی پر روک لگانے میں کامیابی حاصل ہوگی۔ انہوں نے سوالیہ لہجے میں کہا کہ حکومت کا مقصد اگر بلیک منی پر روک لگانا ہے تو اس نے 2000کے نوٹ جاری کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ سکریٹری جنرل نے کہا کہ جماعت سمجھتی ہے کہ یہ صرف سیاسی شعبدہ بازی ہے اور انتخابات کے پیش نظر یہ پالیسی اختیار کی گئی ہے۔