حیدرآباد۔ وزیراعظم سیاسی فائدہ کے لئے تین طلاق کو اترپردیش میں انتخابی موضوع بنانا چاہتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ و صدر کل ہند مجلس اتحاد المسلمین اسد الدین اویسی نے کیا۔ انہوں نے کہا ہے کہ وزیراعظم نریندرمودی حکمرانی،کرپشن،یادو خاندان کے داخلی جھگڑوں کو مسئلہ بنانے کے بجائے اترپردیش کے اسمبلی انتخابات میں رام مندر کی تعمیر اور طلاق کو مسئلہ بنانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب وزیراعظم طلاق ثلاثہ کو انتخابی موضوع بناناچاہتے ہیں تو ملک ان سے یہ جاننا چاہتا ہے کہ وہ ذکیہ جعفری سے انصاف کی بات کیوں نہیں کرتے ؟گجرات میں نسل کشی کے وقت کس نے کہاتھا کہ ریلیف کیمپس بچوں کی پیداوار کے مرکز بنے ہوئے ہیں۔اگر وزیراعظم اس مسئلہ کو انتخابی موضوع بنائیں گے تو مجلس بھی اترپردیش کے عوام کے سامنے اپنی بات رکھے گی اورریاست کے عوام ہی اس پر فیصلہ کریں گے۔ وزیراعظم تعمیری موضوعات پر توجہ دینے کے بجائے اب تقسیم کی بات کر رہے ہیں تاکہ اس بات کویقینی بنایا جائے کہ ان کی پارٹی کامیابی حاصل کرے جو افسوسناک بات ہے۔ اسد اویسی نے پارٹی ہیڈ کوارٹرس دارالسلام حیدرآباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم یہ بھول گئے کہ 2011کی مردم شماری کے مطابق کم عمر شادیوں میں ایک کروڑ ایک لاکھ مسلمان نہیں ہیں ۔وزیراعظم یہ کیوں نہیں کہتے کہ علحدگی اور طلاق کی شرح مذہبی اقلیت مسلمانوں میں زیادہ نہیں ہے۔ وہ زرعی اراضی میں تمام مذاہب کی بیٹیوں کو حصہ دینے کی بات کیوں نہیں کرتے؟
انہوں نے واضح کیا کہ مسلم پرسنل لا بورڈ نے ایک قرارداد منظور کرتے ہوئے اترپردیش کی حکومت سے خواہش کی ہے کہ وہ مسلم لڑکیوں کو زرعی اراضی میں حصہ دار بنائے ۔وزیراعظم یہ کیوں نہیں کہتے کہ گوا میں شادیوں کے قوانین کو برخواست کیا جائے گا کیونکہ گوا میں وہ انتخابات کا سامنا کر رہے ہیں جہاں ہندو بھائیوں کو محدود طورپر کثرت ازدواج کی اجازت دی گئی ہے۔ صدر مجلس نے فون پر طلاق دینے کے واقعات کے سلسلہ میں پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ چیز ہے ۔ علحدگی اور طلاق کے واقعات پر صرف مسلمانوں کو ہی کیوں نشانہ بنایا جارہا ہے؟ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہاکہ جب وزیراعظم دہلی میں بیٹھ کر افغانستان کے کسی ڈیم کا افتتاح کر سکتے ہیں تو یہ کیا ہے؟یہ ٹکنالوجی ہے ۔انہوں نے کہا کہ کسی بھی کام کے لیے مقصد اہم ہوتا ہے ۔اگر کسی کی نیت صحیح ہے تو صحیح کام ہوگا اگر کسی کی نیت خراب ہے تو اس کا نتیجہ خراب نکلے گا۔ یہ انٹرنیٹ اور آن لائن کا زمانہ ہے۔مسلم پرسنل لابورڈ نے واضح طورپر کہا ہے کہ طلاق کا مشورہ نہیں دیا جاسکتا ۔یہ ناپسندیدہ عمل ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ کہنا کہ مسلمانوں میں طلاق کا رجحان زیادہ ہے غلط بات ہے۔ ریکارڈ کو سامنے لانے کی ضرورت ہے جس سے پتہ چلے گا کہ یہ رجحان کس میں زیادہ ہے۔انہوں نے کہاکہ اس مسئلہ پر مسلمانوں کو بدنام نہ کیا جائے ۔ اسلام نے دوسری شادی کی اجازت دی ہے حکم نہیں دیا ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ کو سب سے انصاف کرنا پڑے گا۔ اگر اعداد وشمار کی بات کی جائے تو یہ اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ دوسرے طبقات میں بھی مساوی نمبر کے علحدگی اور طلاق کے واقعات بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر وزیراعظم واقعی مسلم خواتین کے بارے میں فکر مند ہیں تو پھر ملک بھر میں ان کو ریزرویشن کیوں نہیں دیتے ؟اور اس ریزرویشن میں 50فیصد خواتین کو کیوں نہیں دیا جاتا؟لیکن طلاق کے مسئلہ پر صرف ایک ہی مذہب پر توجہ دی جارہی ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے دوسری شادی کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے؟جوابی حلف نامہ میں خواتین کی کانفرنس سی ڈیک کا حوالہ دیا گیا تاہم ہندوستان نے اس کانفرنس میں سی ڈیک کی دفعہ 4اور14پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔حکومت بین الاقوامی سطح پرایک موقف رکھتی ہے اور ہندوستان میں دوسرا موقف اختیار کرتی ہے۔انہوں نے کہاکہ اس حلف نامہ میں حکومت نے لکھا ہے کہ سیکولرازم ملک کی بنیاد ہے لیکن مودی حکومت بیف پرپابندی،اخلاق کی ہلاکت،نجیب کی گمشدگی ،جھارکھنڈ میں انصاریوں کے قتل ، رام مندر کی تعمیر ، رام میوزیم کی تعمیر ، بمبئی ہائی کورٹ کے فیصلہ کے باوجود مسلمانوں کو ریزرویشن سے محروم رکھنے اورجاٹوں ، پٹیلوں کو ریزرویشن کی فراہمی کے ذریعہ سیکولرازم کوکمزور کرنے کے اقدامات کر رہی ہے۔