شام کے شہر حلب کے مشرقی حصے میں محصور شہری جنگ بندی معاہدے کے تین دن بعد بھی امدادی سامان کا انتظار کر رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ اس بات پر برہم ہے کہ امدادی قافلے اب تک ترکی کی سرحد پر کھڑے ہیں کیوں کہ انھیں شامی حکومت کی جانب سے تاحال اجازت نامے نہیں مل سکے۔
شامی حکومت کے حامی روس کا کہنا ہے کہ سرکاری فوجیں حلب کی طرف جانے والی اہم شاہراہ سے پیچھے ہٹ رہی ہیں۔ تاہم امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ان کے پاس اس پسپائی کے کوئی شواہد نہیں ہیں۔
٭ روس اور امریکہ شام میں امدادی سامان پہنچانے میں مدد دیں: اقوامِ متحدہ
٭ جنگ بندی کا پہلا دن نسبتاً پرامن
گذشتہ پیر کو روس اور امریکہ کے تعاون سے ہونے والے جنگ بندی معاہدے کی اہم شق یہ تھی کہ شام کے محصور علاقوں میں امدادی سامان پہنچایا جائے گا۔
تاہم مشرقی حلب میں گھرے ہوئے ڈھائی لاکھ سے زیادہ لوگوں کے لیے خوراک سے لدے دو سو سے زیادہ ٹرک اب بھی ترکی اور شام کی سرحد پر کھڑے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ایلچی برائے شام سٹیفان ڈی مسٹورا نے کہا کہ انھیں ابھی تک شامی حکومت کی جانب سے وہ خط نہیں ملے جن کی مدد سے امدادی قافلوں کو فوجی چوکیوں سے گزرنے کی اجازت مل سکے۔
روس کے نائب وزیرِ خارجہ میخائیل بوگدانوف نے بی بی سی کو بتایا کہ شامی حکومت کو ٹرکوں کے ڈرائیوں کے بارے میں خدشات ہیں۔
ان کے پاس ’کوئی دستاویزات، پاسپورٹ حتیٰ کہ ڈرائیونگ لائسنس تک نہیں ہیں۔ یہ واضح نہیں کہ یہ کون لوگ ہیں۔‘ تاہم انھوں نے کہا کہ ’میرے خیال سے یہ مسئلہ بہت جلد حل کیا جا سکتا ہے۔‘
جنگ بندی کے معاہدے کے تحت دونوں متحارف گروہوں کو کاستیلو سڑک کے گرد ایک غیرفوجی علاقہ قائم کرنا ہے۔ یہ سڑک باغیوں کے زیرِ قبضہ حلب تک جانے کا واحد راستہ ہے۔
حلب کے شہریوں نے جنگ بندی کے بعد عید الضحیٰ نسبتاً سکون سے منائی
ایک سینیئر روسی افسر ولادی میر ساوچینکوف نے جمعرات کو دیر گئے کہا کہ شامی حکومت کی فوج اس علاقے سے ’فوجی ساز و سامان اور عملے کو بتدریج نکال رہی ہے۔‘ تاہم ایک باغی جنگجو نے اس کی تردید کی ہے۔
امریکی دفترِ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے کہا کہ وہ اس بات کی تصدیق نہیں کر سکتے کہ شامی فوجی کاستیلو سڑک سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ جنگ بندی بڑی حد تک قائم ہے، تاہم ’ہم نے دونوں اطراف سے خلاف ورزیاں دیکھی ہیں۔‘
امریکی حکومت نے روس کے اس الزام پر تبصرہ نہیں کیا کہ وہ معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہو رہا ہے۔