پیرس۔ فرانس میں دارالحکومت پیرس میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن مذاکرات کی بحالی کے لیے ایک بین الاقوامی سربراہی اجلاس منعقد ہو رہا ہے۔ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان دہائیوں سے جاری تنازع کے حل کے لیے 70 ممالک کے مندوبین یکجا ہو رہے ہیں اور امید کی جارہی ہے کہ وہ دو ریاستی حل کی از سر نو توثیق اور حمایت کریں گے۔
فلسطین نے اس اجلاس کا خیر مقدم کیا ہے لیکن اسرائیل اس میں شرکت نہیں کر رہا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ یہ کانفرنس اس کے خلاف ہے۔ خیال رہے کہ دونوں ممالک کے درمیان براہ راست مذاکرات کا آخری دور اپریل سنہ 2014 میں ان کی دشمنی کا شکار ہو گيا تھا۔
اسرائیل اور فلسطین کو اس اجلاس کے نتائج سننے کے لیے دعوت دی گئی ہے نہ کہ اس میں شرکت کی۔ یہ جالاس ایک ایسے وقت میں منعقد ہو رہا ہے جب بین الاقوامی برادری اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی جاری ہے کیونکہ گذشتہ ماہ اقوام متحدہ نے مقبوضہ علاقے میں اسرائيل کی تعمیرات کے خلاف ایک قرارداد منظور کی ہے۔ اسرائیل نے اوباما انتظامیہ پر اس بل کی پشت پناہی کرنے اور اسے سکیورٹی کونسل میں ویٹو کے ذریعے نہ روکنے کا الزام لگایا ہے۔
اسرائیلی فوج اور فلسطین کے باشندوں کے درمیان غرب اردن اور غزہ میں اکثرو بیشتر کشیدگی نظر آتی ہے۔ جبکہ وائٹ ہاؤس نے اس قراردار کی منظوری میں کسی قسم کی سازش سے انکار کیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق پیرس میں ہونے والے اجلاس کے مجوزہ بیان میں اسرائیل اور فلسطین نے پر زور دیا گیا ہے کہ وہ دو قومی نظریے کے تحت ‘دو ریاستی حل’ کے لیے اپنے عہد کی باضابطہ پاسداری کریں اور یکطرفہ طور پر ایسے اقدام سے گریز کریں جس سے مصالحت کے حتمی نتائج متاثر ہوں۔
خیال رہے کہ اسرائیل کے ساتھ فلسطین نامی ملک کے دو ریاستی نظریے پر طرفین ایک عرصے سے زور دے رہے ہیں لیکن ریاست کے خدو خال پر طرفین میں بہت زیادہ اختلاف ہے۔ اسرائیل امن کی بحالی کے سلسلے میں بین الاقوامی مداخلت کو مسترد کرتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ تصفیہ صرف براہ راست مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نے پیرس میں ہونے والے اجلاس کو ‘فریب زدہ کانفرنس’ قرار دیا ہے اور اس کے پابند ہونے سے انکار کیا ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ ‘اس سے امن کو دھچکہ لگے گا۔’
امریکہ کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ وزیر خارجہ جان کیری کانفرنس میں موجود ہوں گے تاکہ وہ اس بات کی یقین دہانی کرائیں کہ وہاں جو کچھ ہو وہ مثبت اور متوازن ہو۔ ترجمان مارک ٹونر نے کہا کہ ‘امریکہ نہیں چاہتا کہ اسرائیل پر کوئی حل نافذ کیا جائے۔’ اسرائیل کو خدشہ ہے کہ اجلاس میں حتمی معاہدے کے لیے ان پر شرائط عائد کی جائيں گی اور اقوام متحدہ میں اسے منظور کرانے کی کوشش کی جائے گی۔ اس کے خيال میں ایسا کیا جانا مستقبل کے معاہدے کو نقصان پہنچائے گا۔