انھوں نے کہا کہ اس سڑک پر کولکتہ بستا ہے۔ یہاں مسجد بھی ہے اور قحبہ خانہ بھی اور انھوں نے غالب سٹریٹ کو غالب کے اشعار سے مزین کر دیا ہے۔
اس سٹریٹ پر درجنوں بجلی کے بکسے ہیں اور وہ ہر ایک کو غالب کے اشعار کے ذریعے معنی خیز بنانا چاہتے ہیں۔
مدور پتھریا نے کہا: ‘بجلی کے یہ بکسے اب صرف بکسے نہیں رہے یہ ہماری وراثت کا حصہ بن گئے ہیں۔‘
‘مرزا غالب کا کلام اپنے آپ میں ایک جہان ہے۔ جہاں قحبہ خانہ ہے وہاں موجود بجلی کے بکسے پر میں نے غالب کا ایک مصرع لکھا ہے۔ ‘گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی’ جسے دیکھ کر پڑھنے والے کے چہرے پر ایک معنی خیز مسکراہٹ ضرور پھیل جائے گی۔’
انھوں نے کہا کہ وہ غالب کے اشعار میں نئی معنویت دیکھتے ہیں جس سے اس گلی کے رہنے والے خود کو جوڑ کر دیکھ سکیں۔