پشاور۔ خیبر پختونخوا کی کوہاٹ میں غیر قانونی اسلحے کو ختم کرنے کے لیے مہم شروع کی گئی ہے۔ یہ مہم نیشنل ایکشن پلان کا ہی ایک حصہ ہے اور اس مہم میں لوگوں سے کہا گیا ہے کہ اگر انھوں نے 31 جنوری تک اپنا غیر قانونی اسلحہ خاص طور پر بھاری اسلحہ انتطامیہ کے پاس جمع نہ کرایا تو پھر ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
خیبر پختونخوا کی کوہاٹ ڈویژن اور اس سے ملحق قبائلی علاقوں میں لوگوں کو غیر مسلح کرنے کے لیے مہم شروع کی گئی ہے جس میں لوگوں سے کہا گیا ہے کہ وہ 31 جنوری تک بغیر لائسنس کے اسلحے کو حکومت کے حوالے کر دیں۔ یہ مہم نیشنل ایکشن پلان کا ہی ایک حصہ ہے اور اس مہم میں لوگوں سے کہا گیا ہے کہ اگر انھوں نے 31 جنوری تک اپنا غیر قانونی اسلحہ خاص طور پر بھاری اسلحہ انتطامیہ کے پاس جمع نہ کرایا تو پھر ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
یہ مہم فی الحال خیبر پختونخوا کے صرف ایک ضلع کوہاٹ اور قبائلی علاقوں میں اورکزیی ایجنسی، اور کرم ایجنسی میں شروع کی گئی ہے جبکہ دیگر علاقوں میں اس طرح کی کسی مہم کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
کوہاٹ کے ضلعی پولیس افسر جاوید اقبال سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اب علاقے میں بڑی حد تک امن قائم ہو چکا ہے، اس لیے نیشنل ایکشن پلان کے تحت یہ ضروری ہے کہ لوگوں کو اب غیر مسلح کر دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان کو اب ڈیڑھ سے دو سال ہو گئے ہیں اور بیشتر علاقوں سے شدت پسندوں کا صفایا کر دیا گیا ہے، اس لیے نجی سطح پر عام لوگوں کے پاس غیر لائسنس شدہ اسلحے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں استرزئی کے علاقے سے اسلحہ ملا بھی ہے جس میں بھاری ہتھیار شامل ہیں۔ بھاری ہتھیاروں میں راکٹ لانچر اور مارٹر گولے شامل ہیں۔ لوگوں کو غیر مسلح کرنے کے لیے کوہاٹ میں گزشتہ ہفتے ایک گرینڈ جرگہ منعقد ہوا تھا جس میں مذہبی سیاسی اور مقامی رہنماوں کے علاوہ ضلعی انتظامیہ، پولیس اور سیکیورٹی فورسز کے حکام نے شرکت کی تھی۔
اس جرگے میں کہا گیا تھا کہ یکم فروری کے بعد سے کوہاٹ ڈویژن کے تمام علاقوں میں آپریشن شروع کیا جائے گا جس میں کسی کے ساتھ نرمی نہیں برتی جائے گی۔ خیبر پختونخوا کی کوہاٹ اور ملحقہ قبائلی علاقوں میں لوگوں کا کہنا ہے کہ تشدد کے واقعات تو اب بھی پیش آ رہے ہیں جنھیں حکومت روکنے میں ناکام رہی ہے۔ پاڑہ چنار میں دو روز پہلے دھماکے میں پچیس افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ پشاور میں شیعہ رہنما عابد حسین شاکری کا کہنا تھا کہ ان کے لوگوں نے اسلحہ اپنے تحفظ کے لیے رکھا ہوا ہے، وہ حکومت کے خلاف نہیں ہیں۔
خیبر پختونخوا کی کوہاٹ اور ملحقہ قبائلی علاقوں میں لوگوں کا کہنا ہے کہ تشدد کے واقعات تو اب بھی پیش آ رہے ہیں جنھیں حکومت روکنے میں ناکام رہی ہے۔ اپنی برادری کے بارے میں انھوں نے کہا کہ طوری اور بنگش علاقوں سے اہلکاروں نے اسلحہ اٹھایا ہے، اب پاڑہ چنار میں بھی کہا گیا ہے کہ اسلحہ حکومت کے حوالے کر دیں حالانکہ یہ واضح ہے کہ انھوں نے کبھی حکومت کے خلاف اسلحہ نہیں اٹھایا، ناں ہی انھوں نے کبھی حکومت کی رٹ کو کبھی چیلنج کیا ہے۔