دوروزہ بین الاقوامی وقف سیمینا رمیں فقہ اکیڈمی کا حکومت سے مطالبہ
نئی دہلی : وقف بورڈوں کو مسلمانوں کے مکمل کنٹرول میں دیا جائے ، آثار قدیمہ کی مساجد کو مقامی مسلمانوں کے حوالے کیا جائے ، خصوصی ٹریبیونل قائم کرکے ان کی مدت مقرر کی جائے اور ملی تنظیمیں وقف بورڈوں کا مشترکہ طور پر سالانہ احتساب کریں ۔ یہ چند تجاویز اور مطالبات ہیں جو ’ہندوستان میں اوقاف: چیلنجز اور مشکلات‘ کے موضوع پر یہاں اسلامک فقہ اکیڈمی کے زیر اہتمام منعقدہ دو روزہ بین الاقوامی سیمینا ر میں بلند کئے گئے ۔
سیمینار نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ مسلمان وقف کی شکل میں ایک بہت بڑی دولت کے مالک ہیں لیکن وہ اس سے ابتک کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکے ۔ اس پہلو پر ہر ملی تنظیم ، ادارہ اور ہر مسلم کو غور و خوض کرکے عملی طور پر سرگرم ہوجانا چاہیے ۔ دو دن تک چلے سیمینا ر میں چھ اجلاس منعقد ہوئے جس میں 53 مقالوں کے علاوہ 12مقرروں نے برجستہ اظہار خیال کیا ۔ وقف کے متعدد پہلووں اور مسائل پر مقالے پیش کئے گئے۔
فقہ اکیڈمی کو توقع تھی کہ آثار قدیمہ کے متعلق جو تحقیقی مقالات پیش کئے گئے ان میں ملک بھر میں پھیلے ہوئے اسلامی آثار کی ایک صحیح اور مستند تصویر سامنے آجائے گی جنہیں آثار قدیمہ کے نام پر ان کے کنٹرول سے مسلمانوں کو محروم رکھا گیا حالانکہ ان میں بیشمار مساجد بھی ہیں جن کی بے حرمتی کے واقعات آئے دن اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں ۔ ان مقالات سے یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ مسلمان اپنے اس بیش قیمت سرمایہ سے پوری طرح واقف نہیں ہیں ۔ اس سلسلہ میں ایک تجویز میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ ان قدیم مساجد کو مقامی مسلمانوں کی کمیٹی کے حوالے کردیا جائے تاکہ وہ ان مساجد کا بہتر انتظام کے علاوہ اس کی حفاظت کرسکیں۔ سیمینا ر نے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ قدیم ہندو منادر میں پوجا پاٹ کی اجازت ہے تو مسلمانوں کو اس سے کیوں محروم رکھا جاتا ہے جبکہ مساجد نمائش کے لئے بلکہ عبادت کے لئے تعمیر کی گئی ہیں ۔
سیمینار میں یہ پہلو بھی سامنے آیا کہ وقف بورڈوں کے پاس سرمایہ کاری کے متعلق کوئی پروگرام اور پالیسی نہیں ہے ، نہ ان اداروں میں کوئی ریسرچ سیکشن یا سرمایہ کاری سے متعلق شعبہ ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جو بورڈ منافع میں چل رہے ہیں انہیں اس بارے میں کوئی رہنمائی نہیں ملتی کہ پیسہ کہاں لگائیں ۔ ملی تنظیمیں اور ادارے وقف کے سلسلہ میں فکرمند تو رہتے ہیں لیکن انکی کاوش انفرادی نوعیت کی ہوتی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ وہ ہر سال اجتماعی طور پر تمام بورڈوں کی کار کردگی کا تجزیہ اور جائزہ لیں تاکہ ان اداروں میں جوابدہی کا احساس پیدا ہو ۔ آج صورت حال یہ ہے کہ بورڈ سیاسی باز آبادکاری کے عملاً ادارے بن کر رہ گئے ہیں ۔
ایک تجویز میں موجودہ وقف کی ہئیت ترکیبی کو بدلنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس سے وقف کے کاز کو نقصان پہنچ رہا ہے ۔ ’’ اس لئے وقف بورڈوں کو ملی جاعتوں ، بڑی دینی درسگاہوں کے نمائندوں ، اور مشاہیر علماء و مشائخ پر مشتمل ہونا چاہیے ۔ سیمینا رنے ملی تنظیموں سے یہ بھی اپیل کی کہ وہ وہ مرکزی سطح پر ایک ایسا ریسرچ ادارہ قائم کریں جس میں علما اور ماہرین شامل ہوں اور یہ ادارہ وقف املاک کی ترقی اور تحفظ کے لئے منصوبہ بندی کرے ۔
سیمینار میں ایک درجن سے زائد تجاویز پاس کی گئیں اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ گردوارہ پربندھک کمیٹی کی طرز پر مسلمانوں کو اپنی وقف کمیٹی بنانے کا اختیار دے ۔ وقف مقدمات کے لئے خصوصی ٹریبیونل قائم کئے جائیں اور انکی مدت چھ ماہ یا زیادہ سے زیادہ ایک سال ہو۔ وقف انخلاء کے بل کو فوری طور پر منظور کیا جائے ۔ قبرستانوں کا مسئلہ بھی زیر بحث آیا۔ملک کے متعدد شہروں میں قبرستان بڑ ے بیش قیمت مقامات پر واقع ہیں انکی حفاظت ایک بھی ایک اہم مسئلہ ہے ۔
قاضی مجاہد الاسلام قاسمی نے اس بارے میں یہ فتوی دیا تھا کہ قبرستانوں پر چھت ڈال کر کار پارکنگ یا دکانیں تعمیر کی جائیں۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ، جنرل سیکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی کی صدارت میں اختتامی اجلاس میں یہ تجاویز پیش کی گئیں ، اس سے قبل کویت کے امانت عامہ اوقاف کی نمائندہ محترمہ امل حسین الدلال نے اپنے ایک مقالہ میں کویت میں وقف کی ترقی کے لئے ہوری سر گرمیوں کا مفصل ذکر کیا اور کہا کہ اس ماڈل کو اپنا کر ہندوستان میں بھی وقف املاک سے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ بحرین کے اسکالر ڈاکٹر حبیب الناملیتی نے اپنے ملک میں وقف کی صورت حال سے روشناس کرایا اور بتایا کہ تمام مساجد کا انتظام وقف کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔