الہ آباد۔ یو پی اسمبلی انتخابات میں مسلم ووٹ بینک کی سیاست سے مسلمانوں میں ناراضگی ہے۔ یو پی میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب بیس فیصد سے زیادہ ہے ۔ ریاست میں کسی بھی پارٹی کو اقتدار تک پہنچانے میں مسلمانوں کے ووٹ فیصلہ کن تصور کیے جاتے ہیں ۔ الیکشن کی تاریخوں کا اعلان ہوتے ہی تمام بڑی پارٹیوں نے اپنے اپنے مسلم چہروں کو میدان میں اتار دیا ہے ۔ ریاست میں ایک بار پھرمسلم ووٹوں پر تمام پارٹیوں کی نگاہیں جم گئی ہیں ۔
یو پی انتخابات میں مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے سیاسی پارٹیوں نے ایڑی سے لیکر چوٹی تک کا زور لگا دیا ہے ۔ ریاست میں سر گرم تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنی پارٹی کے نمایاں مسلم چہروں کو میدان میں اتار دیا ہے ۔ سماج وادی پارٹی کا سب سے نمایاں مسلم چہر ہ اعظم خاں ، بہوجن سماج پارٹی کا مسلم چہرہ منقاد علی ، کانگریس کا مسلم چہرہ سراج مہدی کے علاوہ کئی اور مسلم لیڈران ان دنوں مسلم ووٹروں کو لبھانے کے لئے میدان میں ہیں ۔
اس پوری کہانی کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ایک بھی مسلم امیدوار کو ٹکٹ نہ دینے والی بی جے پی نے بھی شاہنواز حسین کوبطور مسلم چہرہ یو پی میں ذمہ داری دی ہے ۔ یو پی الیکشن میں مسلم چہروں کی اس نمائش پر سماج کا باشعور طبقہ سخت ناراض ہے۔ معروف سیاسی تجزیہ کار شوکت عابدی کا کہنا ہے کہ سیاسی پارٹیوں میں شامل مسلم چہروں سے ابھی تک مسلمانوں کو کوئی بھی فائدہ نہیں ملا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ریاست کے مسلمانوں کے لیے ریزر ویشن، اوقاف کا تحفظ، تعلیمی اور معاشی پسماندگی یہ وہ مسائل ہیں جن کو حل کرنے کا وعدہ تقریباً ہر سیاسی پارٹیاں کرتی رہی ہیں لیکن الیکشن کے بعد مسلمانوں کے یہ سارے مسائل ٹھنڈے بستے میں چلے جاتے ہیں اور مسائل جوں کے توں بر قرار رہتے ہیں ۔ مسلمانوں کے باشعور طبقے کا خیال ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے لیے مسلمان صرف ایک ووٹ بینک بن کر رہ گئے ہیں ۔