تہران۔ ایران کی سیاست کے بارے میں ایک دانشور نے یہ بڑا معنی خیز تبصرہ کیا تھا کہ وہ پہلے اپنے ایک طاقتور دشمن سے دوسرے کمزور دشمن کو مرواتا ہے اور پھر وقت ضرورت سرنگوں ہونے والے حریف کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتا ہے۔
وہ اب افغانستان کے طالبان مزاحمت کاروں کے ساتھ یہی کھیل کھیلنے جا رہا ہے۔ وہ ماضی قریب میں جنگ زدہ ملک میں افغان حکومت اور اس کے پشتیبان امریکا کی طالبان کی سرکوبی کے لیے جنگ میں حمایت کرتا رہا ہے اور اب اس نے طالبان تحریک کے رہ نماؤں کو تہران میں ہونے والی دو روزہ اتحاد اسلامی کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ بھیجا ہے۔
ایران کی خبررساں ایجنسی مہر کی رپورٹ کے مطابق عالمی فورم برائے اتحاد اسلامی مکاتب فکر کے سیکریٹری جنرل محسن آراکی نے تہران میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا ہے کہ طالبان کی اعتدال پسند شخصیات کو دارالحکومت میں منعقد ہونے والی دو روزہ بین الاقوامی اتحاد اسلامی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔
انھوں نے بتایا ہے کہ ”طالبان تحریک کی ان بعض اسلامی اور سیاسی شخصیات کو دعوت نامہ بھیجا گیا ہے جو مسلمانوں کے اتحاد میں یقین رکھتی ہیں۔انھوں نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ ایران کے ہمیشہ طالبان تحریک کی ان بعض شخصیات سے روابط رہے ہیں، جو اسلامی اتحاد کی حامی ہیں۔
اس اعلان سے دو روز قبل ہی کابل میں متعیّن ایرانی سفیر محمد رضا بہرامی نے ایک بیان میں افغان طالبان اور ایران کے درمیان بات چیت کی اطلاع دی تھی۔ایران اس سے پہلے طالبان تحریک سے براہ راست روابط کی تردید کرتا رہا ہے۔
واضح رہے کہ افغان حکام نے گذشتہ مہینوں کے دوران میں ایران پر طالبان کو فوجی امداد اور پناہ دینے کا الزام عاید کیا تھا اور اس کی بدولت ان کے بہ قول افغانستان کے مختلفعلاقوں میں طالبان کی مزاحمتی سرگرمیوں میں شدت آئی تھی۔