جرمن وزارت انصاف نے پولیس کی حراست میں موجود ایک مشتبہ شامی شدت پسند کی ہلاکت کی خبر کی تصدیق کی ہے۔ دوسری جانب جرمن ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا ہے کہ شامی پناہ گزین جس پر جرمنی میں دہشت گردی کی سازش تیار کرنے کا الزام عاید کیا تھا نے خود کشی کرلی ہے تاہم اس کی مزید تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق جرمنی کی ریاست سساکسونیا کی وزارت انصاف کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پولیس کی تحویل میں موجود شامی پناہ گزین دہشت گردی جابر البکر وفات پا گیا ہے۔ جرمن اخبارات جن میں سر فہرست موقر اخبار ’دیر اسپیگل‘ بھی شامل ہے کا کہنا ہے کہ جابر البکر نے پولیس حراست کے دوران خود کشی کی ہے۔ سرکاری سطح پر اس دعوے کی تصدیق یا ترید نہیں کی گئی۔
جرمنی کے ایک دوسرے اخبار ’بیلد‘ اور ‘ڈی بی اے‘ نیوز ایجنسی نے اپنی رپورٹس میں بتایا ہے کہ مشتبہ شامی شدت پسند کو جیل میں مردہ پایا گیا ہے۔ اس کی موت گلے میں پھندا ڈال کر خود کشی سے ہوئی ہے.
دیر اسپیگل اخبار کی ویب سائیٹ کے مطابق پولیس کو خدشہ تھا کہ جابر البکر کسی بھی وقت خود کشی کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس نے اس پر کڑی نظر رکھی ہوئی تھی۔ البکر نے چونکہ بھوک ہڑتال بھی شروع کر رکھی تھی اس لیے غالب امکان ہے کہ اس نے خود کشی کرلی ہے تاہم اس رپورٹ میں یہ وضاحت نہیں کہ آیا زیر حراست ملزم نے خود کشی کیسے کی ہے۔
خود کشی کی خبر سامنے آنے کے بعد بدھ کے روز جرمن وزارت انصاف کی طرف سے بھی ایک وضاحت بیان جاری کیا گیا جس میں مختصراْ کہا گیا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار شامی پناہ گزین کی دوران حراست موت واقع ہوگئی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ آج جمعرات کو اس حوالے سے مزید تفصیلات ایک پریس کانفرنس میں بتائی جائیں گی۔
خیال رہے کہ حال ہی میں پولیس نے شامی پناہ گزین جابر البکر کی تصاویر ملک کے اہم مقامات پر پوسٹ کی تھیں جن میں اسے اشتہاری قرار دیا گیاتھا۔ گذشتہ سوموار کو تین شامی پناہ گزینوں نے اس کی شناخت کی اور وہ پکڑ کراسے پولیس کے پاس لے آئے تھے۔ اس کے بعد جرمن انٹیلی جنس حکام نے ایک بیان میں کہا تھا کہ دارالحکومت برلن سمیت کئی دوسرے مقامات پر دہشت گردی کی منصوبہ بندی کرنے والے شامی پناہ گزین کو گرفتار کرلیا گیا ہے جس کی شناخت جابر البکر کے نام سے کی گئی ہے۔
جرمن حکام کی طرف سے ملزم کے بارے میں جاری کردہ ابتدائی معلومات میں بتایا گیا تھا کہ ملزم کی عمر 22 سال ہے۔ اس کی گرفتاری عمل میں لائے جانے سے قبل اس کے بارے میں ٹھوس معلومات جمع کی گئی ہیں۔ اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ وہ دہشت گردی کی منصوبہ بندی کررہا تھا اور اس مقصد کے لیے اس نے دھماکہ خیز مواد بھی خرید کیا تھا۔
جرمن حکام کا کہنا ہے کہ مشتبہ ملزم جابر البکر جس نوعیت کی دہشت گردی کی منصوبہ بندی کررہا تھا وہ گزشتہ برس نومبر میں فرانس میں ہونے والی دہشت گردی سے کسی طور پر بھی کم خطرناک نہیں تھی۔ جرمن وزیر خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ جابر البکر جیسے خطرناک دہشت گرد کو گرفتار کرکے جرمنی کو خوفناک دہشت گردی سے بچا لیا گیا تھا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس نے چیمنٹز شہر میں واقع ملزم کے فلیٹ سے کئی کلو گرام دھماکہ خیز مواد برآمد کیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ انہیں خدشہ ہے کہ ملزم کا تعلق شدت پسند تنظیم دولت اسلامی ’داعش‘ سے ہے۔
ملزم کے بارے میں منفرد معلومات
جرمنی میں دہشت گردی کی سازش تیار کرنے کے جرم میں گرفتار مبینہ دہشت گرد جابر البکر کے بارے میں اب تک جو معلومات سامنے آئی ہیں ان میں بتایا گیا ہے کہ ملزم کا خاندان شام سے ھجرت کرکے ترکی کے راستے جرمنی پہنچا تھا مگر بعد ازاں اس کا خاندان واپس شام چلا گیا ہے۔
خود جابر البکر بھی شام سے ترکی اور جرمنی کے متعدد سفر کرچکا ہے۔ جرمن ٹی وی MDR پر نشرہونے والے ایک پروگرام ایکزیکٹ میں بتایا گیا ہے کہ 22 سالہ ملزم جرمنی سے واپس شام کے شہر ادلب آیا۔ وہاں کچھ عرصہ قیام کے بعد دوبارہ ترکی اور وہاں سےجرمنی پہنچا تھا۔
ٹی وی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جرمنی کے پہلے سفر میں جابر البکر ریاست سکسونیا کے شمالی شہر ایلنبرگ میں ٹھہرا۔ اس عرصے میں وہ مذہبی شدت پسند نہیں تھا تاہم جب وہ ترکی واپس آیا اور وہاں سے دوبارہ جرمنی لوٹا تو اس کا مزاج تبدیل ہوچکا تھا۔
ملزم کے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ’فیس بک‘ کے صفحے سے بھی اشارہ ملتا ہے کہ وہ داعش سے ہمدردی رکھتا تھا۔
فیس بک پر اس کے ایک داعشی جنگجو دوست کے ساتھ ہونے والی بات چیت بھی موجود ہے جس میں اس نے کہا تھا کہ وہ یہودیوں اور صلیبیوں کے خلاف جہاد میں شرکت کے لیے تیار ہے۔