نئی دہلی: یوگی کابینہ کے وزیر محسن رضا پر وقف کی زمینیں فروخت کا الزام لگا ہے۔ اتر پردیش کی حکومت میں وزیر محسن رضا پر وقف کی اراضی فروخت کرنے کے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ الزام ہے کہ 2010 میں پاور آف اٹارنی اپنی والدہ زاهدہ بیگم کے نام کرکے زمینیں فروخت کی گئیں ۔
یہ زمینیں اناؤ کے صفی پور کے مین بازار میں ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ محسن رضا صفی پور کے ہی رہنے والے ہیں۔ صفی پورمیں وقف کی تقریبا 505 گز زمینیں تین مرتبہ میں فروخت کی گئیں ، جہاں اب دوکانیں ہیں۔الزامات کے مطابق 505 گز زمینیں 27.12.2005، 9.08.2006 اور 29.03.2011 کو فروخت کی گئیں۔ زمین کی قیمت تقریبا دو کروڑ سے زیادہ ہیں۔
این ڈی ٹی وی کی خبر کے مطابق 1937 میں عالیہ بیگم نے یہ زمینیں وقف کو عطیہ کر دی تھیں۔ اس کے بعد سے محسن رضا کا کنبہ اس وقف کی زمینوں کی نگرانی کر رہا تھا۔ یہ پورا معاملہ اسی گاوں کے رہنے والے مسرور حسن کی طرف سے وقف بورڈ میں شکایت کرنے کے بعد یہ پورا معاملہ سامنے آیا ہے۔
وقف بورڈ کی جانب سے اس کی جانچ کی گئی، جس میں انہیں اور ان کے کنبہ کو قصوروار پایا گیا ہے۔ ان کو بورڈ کے سامنے اپنا موقف رکھنے کے لئے 13.01.16 نوٹس دیا گیا۔ چھ ہفتوں میں جواب دینا تھا ، مگر نہ کوئی آیا اور نہ ہی ان کی طرف سے کوئی جواب بھیجا گیا۔ جس کے بعد ان کے دو چچا نے اپنے جواب میں بتایا کہ یہ وقف کی زمینیں نہیں ہیں، تو ان پر کوئی کارروائی نہ کی جائے۔
بورڈ ان کے جواب سے مطمئن نہیں ہوا، کیونکہ ریکارڈ میں یہ نمبر 2424 وقف کے نام پر درج ہیں۔ اس کے بعد وقف نے 13/04/17 سیکشن 52 (1) (2) (3) کے تحت اناؤ کلکٹر کو خط بھیجا کہ فروخت کی گئی جائیداد پر وقف کا قبضہ بحال کروایا جائے اور 52 (ا) کے تحت تمام مجرم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرائیں۔
اپنے دفاع میں محسن رضا نے این ڈی ٹی وی کو کچھ دستاویزات دئے ہیں۔ تاہم یہ دستاویزات وہی ہیں ،جو محسن کے ماما نے وقف بورڈ کے نوٹس کے جواب میں بھیجے تھے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ جو زمینیں فروخت کی گئیں ہیں وہ آبادی نمبر 2424 ہیں ، جو کہ وقف نہیں ہیں ، بلکہ جو 2424 وقف ہے ، وہاں آج بھی مکان ہے جو فروخت نہیں کیا گیا ہے۔
آر ٹی آئی کے ذریعہ نگر پالیکا سے حاصل کی گئی معلومات کے مطابق مکان سڑک والا نمبر 2424 نگر پنچایت صفی پور کے تحت واقع ہی نہیں ہے اور نہ ہی اس کے ہونے کا کوئی ریکارڈ موجود ہے۔ بلکہ سرکاری دستاویزات میں آبادی نمبر 2424 وقف ہے۔ اس کی بنیاد پر ہی وقف بورڈ نے کارروائی کی ہے۔