نئی دہلی: دہلی کا جے این یو ایک بار پھر تنازعات میں ہے. یونیورسٹی کیمپس کے اندر کشمیر کی آزادی والے پوسٹر لگائے گئے ہیں جس پر ماحول گرماتا دکھائی دے رہا ہے. پوسٹر میں کشمیر کے مقابلے فلسطین سے کی گئی ہے، جس میں کشمیر کی آزادی کی بات کہی گئی ہے. ادھر، دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ پوسٹر کو لے کر جے این یو انتظامیہ سے کوئی شکایت نہیں ملی ہے، شکایت ملنے کے بعد ہی وہ کارروائی کریں گے. لیفٹ کے طالب علم تنظیم ڈی ایس یو یعنی ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس یونین نے اس پوسٹر کو لگایا ہے. DSU الٹرا لیفٹ طالب علم تنظیم ہے.
جے این یو کے طالب علموں کے متابك- یہ پوسٹر گزشتہ تقریبا ایک سال سے یہاں لگا ہے، لیکن دہلی یونیورسٹی میں ہوئے تازہ تنازعہ کے بعد اچانک یہ معاملہ اٹھ گیا ہے. اے بی وی پی کے طالب علم ٹھیک پانڈے کا کہنا ہے یہ پوسٹر تین چار ماہ پہلے کا ہے. وہیں NSUI سنی دھمان کا کہنا ہے کہ پوسٹر ایک سال پرانی ہے.
میڈیا رپورٹس کے متابك- یہ تنظیم تقریبا ایک سال پہلے جے این یو میں سرگرم تھا. کیمپس میں دےشورودھي نعرے لگانے کے ملزم عمر خالد اور انربان بھٹاچاریہ اس کے ممبر تھے. ڈيےسيو کے سابق ارکان عمر خالد، انربان بھٹاچاریہ اور دیگر نے پارلیمنٹ حملے کے مجرم افضل گرو کو پھانسی دیے جانے کے خلاف گزشتہ سال متنازعہ پروگرام کا انعقاد کیا تھا جس میں مبینہ طور پر راشٹورودھي نعرے بازی ہوئی تھی. فی الحال اس معاملے کو لے کر عمر خالد اور انربان کچھ نہیں بول رہے ہیں.
کچھ دن سے رامجس کالج تنازعہ کو لے کر نارتھ کیمپس کا بھی ماحول گرمایا ہوا ہے.
رامجس کالج کے سمینار میں 21 تاریخ کو عمر خالد اور شےهلا رشید کو بلائے جانے پر اے بی وی پی نے اعتراض ظاہر کیا تھا اور اسی کے بعد تشدد شروع ہو گئی تھی. اس کے بعد گرمےهر کور نے اے بی وی پی کے خلاف احتجاج تھا. گرمےهر نے الزام لگایا کہ انہیں سوشل میڈیا پر ریپ کی دھمکیاں مل رہی ہیں. یہ معاملہ اتنا بڑھ گیا کہ كرے رجيجو سے لے کر راہل گاندھی، اروند کیجریوال اور وینکیا نائیڈو تک کو اس میں کودنا پڑا.